بدھ، 4 دسمبر، 2019

بینک کے لیے جگہ کرایہ سے دینا

*بینک کے لیے جگہ کرایہ سے دینا*

سوال :

مفتی صاحب! ہماری ایک جگہ ہے، بینک والے اسے کرائے سے لینا چاہتے ہیں۔ اسکا جو کرایہ آئیگا کیا اسکا کرایہ جائز ہوگا یا نہیں؟
(المستفتی : الطاف بھائی، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و باللہ التوفیق : کُتُب فقہ و فتاوی سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی جگہ محض کرایہ وصول کرنے کی نیت سے کسی کو دینا جائز ہے۔ اب لینے والا اس جگہ جو کام کرے گا اس کا وہ ذمہ دار ہوگا۔ البتہ پہلے سے یقینی علم ہونے کی صورت میں بینک کو جگہ کرایہ سے دینا کراہت سے خالی نہیں ہے، کیونکہ اس میں تعاون علی المعصیت کا شبہ بہرحال باقی رہتا ہے، لہٰذا احوط یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے، تاہم اگر کسی نے بینک کو اپنی جگہ کرایہ سے دے دی تو اس کا کرایہ حلال ہوگا، اس پر حرام کا حکم نہیں ہے۔

لا بأ س بأن یؤاجرالمسلم دارًا من الذمي یسکنہا؛ فإن شرب فیہا الخمر أو عبد فیہا الصلیب أو أدخل فیہا الخنازیر لم یلحق للمسلم إثم في شيء من ذٰلک؛ لأنہ لم یؤاجرہا لذلک، والمعصیۃ في فعل المستأجر وہو مختار دون قصدرب الدار، فلا إثم علی رب الدار في ذٰلک۔ (المبسوط للسرخسي ۱۶؍۳۰۹)

وجاز إجارۃ بیت بسواد الکوفۃ أي قراہا (الدر المختار) ہٰذا عندہ أیضا؛ لأن الإجارۃ علی منفعۃ البیت، ولہٰذا یجب الأجر بمجرد التسلیم ولا معصیۃ فیہ، إنما المعصیۃ بفعل المستأجر، وہو مختار فینقطع نسبتہ عنہ، فصار کبیع الجاریۃ عمن لا یستبرئہا أو یأیتہا من دبر۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاسبتراء ۹؍۵۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الآخر 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں