ہفتہ، 21 دسمبر، 2019

نکاح سے پہلے طلاق دینے کا مسئلہ

*نکاح سے پہلے طلاق دینے کا مسئلہ*

سوال :

حضرت مفتی صاحب! امید کرتا ہوں کہ خیریت و عافیت سے ہونگے۔ مسئلہ کچھ اس طرح ہے کہ کوئی بالغ لڑکا یہ کہے کہ میری شادی جس لڑکی سے بھی ہوگی اسے نکاح ہوتے ہی تین طلاق، تو کیا ایسے الفاظ سے طلاق واقع یا نہیں؟ مکمل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
---------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں چونکہ اس لڑکے نے "تین طلاق" کے الفاظ کہے ہیں، لہٰذا جیسے ہی اس کا نکاح ہوگا اس کی بیوی پر تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔ اور بغیر خلوتِ صحیحہ کے طلاق ہوجانے کی صورت میں بیوی پر عدت گذارنا لازم نہ ہوگا۔ اور وہ نصف مہر کی حقدار ہوگی۔ نیز بغیر حلالۂ شرعیہ کے دوبارہ اس سے نکاح درست نہ ہوگا۔

البتہ اگر اس نے تین  طلاق متفرق تین لفظوں سے دی ہو  مثلاً اس نے کہا ہو کہ میری شادی جس لڑکی سے بھی ہوگی اسے نکاح ہوتے ہی ’’ طلاق ، طلاق، طلاق‘‘ تو اس طرح  کہنے  سے پہلی ہی طلاق سے وہ فوراً مطلقہ بائنہ ہوکر اس کے نکاح  سے بالکلیہ  خارج ہوجائے گی، چونکہ اس پر عدت واجب نہیں ہوتی اس لیے وہ محل  طلاق باقی نہیں رہے گی، لہٰذا اس کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ یکے بعد دیگرے جو  طلاق  دی گئی ہیں، وہ شرعی طور پر واقع نہیں ہوں گی، بلکہ لغو اور بے فائدہ ہوجائیں گی، اس صورت میں چونکہ صرف ایک طلاقِ  بائن واقع ہوئی،  طلاق  مغلظہ واقع نہیں ہوئی، لہٰذا بغیر حلالۂ شرعیہ کے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا  قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق وكذا إذا قال أنت طالق واحدة وواحدة وقعت واحدة كذا في الهداية۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، ۳۷۳/۱)

لا یجب علیہا العدۃ، وکذا لو طلّقہا قبل الخلوۃ۔ (خانیۃ علی الہندیۃ، ۱؍۵۴۹/بحوالہ کتاب النوازل)

وإن طلقہا قبل الدخول بہا، والخلوۃ، فلہا نصف المسمیٰ؛ لقولہ تعالیٰ: وان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن۔الآیۃ (ہدایۃ، کتاب النکاح، باب المہر، اشرفي دیوبند۲/۳۲۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں