اتوار، 15 دسمبر، 2019

ٹریفک جام ختم کردینا بھی بہت بڑی نیکی ہے

*ٹریفک جام ختم کردینا بھی بہت بڑی نیکی ہے*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جس میں اِس کے ماننے والوں کے لیے ہر شعبہ میں ایسے درخشاں اور زرین اصول وضوابط کے ذریعے رہنمائی کی گئی ہے کہ اگر مسلمان اس پر مکمل طور عمل پیرا ہوجائیں تو سماج اور معاشرہ مثالی اور امن کا گہوارہ بن جائے۔ لیکن افسوس صد افسوس آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اسلامی تعلیمات کو یکسر طور پر نظر انداز کیے ہوئے جس کی وجہ سے خود بھی پریشان ہے اور دوسرو‌ں کے لیے بھی اذیت کا سبب بنا ہوا ہے‍۔

محترم قارئین ! پیشِ نظر تحریر کے ذریعے ایک اہم اور نیک کام کی طرف توجہ اور رغبت دلانا مقصود ہے، وہ یہ کہ شہرِ عزیز مالیگاؤں میں چونکہ متعدد بڑے بڑے مسائل میں ایک بڑا دردِ سَر یہاں کی تنگ گلیاں اور سڑکیں ہیں اور اس پر ناسُور بنتا ہوا ناجائز قبضہ جات یعنی اتی کرمن کا پھوڑا ہے جو دن بدن شہر کو مزید مسائل سے دو چار کررہا ہے۔ اِن مزید مسائل میں ایک مسئلہ ٹریفک جام کا ہے۔ جو ٹریفک پولیس کے نہ ہونے سے شہر کی اکثر شاہراؤں پر بار بار پیش آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے راہ گیروں کے لیے راستہ چلنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ ایک مرتبہ ٹریفک میں پھنس جانے کی صورت میں پانچ سے دس منٹ ضائع ہورہے ہیں۔ اسی کے ساتھ راہ گیروں کے ایک دوسرے سے اُلجھنے یہاں تک کہ جھگڑے اور ہاتھا پائی کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ لہٰذا جب تک اتی کرمن اور ٹریفک کا مسئلہ مستقل طور پر عوام اور انتظامیہ کی جانب سے حل نہیں ہوجاتا۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے جس کے ذریعے وہ عظیم اجر و ثواب کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ وہ نیک کام یہ ہے کہ جب بھی کہیں ٹریفک جام ہوجائے تو اِدھر اُدھر کھڑے یا بیٹھے ہوئے ہمارے نوجوان اگر دو پانچ منٹ اپنا قیمتی وقت کھڑے ہوکر سواریوں کے نکالنے میں لگادیں تو بلاشبہ ان کا یہ عمل راہ گیروں کے لیے بڑی راحت کا سبب بن کر خود اُن کے لیے ذخیرۂ آخرت بنے گا۔ کیونکہ احادیثِ مبارکہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ راستے میں اگر کوئی تکلیف دِہ چیز پڑی ہو تو اس کو ہٹا دیا جائے، اور اس عمل پر بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اور آخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستہ سے ہٹا دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (بخاری ومسلم)

ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان منقول ہے کہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔ (مسلم)

ایک روایت میں ملتا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی، یا درخت پر تو اس عمل پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔ (ابوداؤد)

چونکہ ہم نے کئی مرتبہ اس کا مشاہدہ کیا جس کا بڑا فائدہ نظر آیا۔ کیونکہ اگر کوئی سواریوں کو نکالنے کے لیے کھڑا نہ ہوتو ہر کوئی اپنے طور پر نکلنے کی کوشش میں مزید ٹریفک جام کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لئے دل میں خیال ہوا کہ ایک مضمون میں اس عمل کی فضیلت بیان کرکے اس کی طرف شہریان کو راغب کیا جائے۔ کیونکہ اتی کرمن پر پہلے ہی کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اور اس کے سدِباب کے لیے گاہے بگاہے تحریک بھی چلتی رہتی ہے، لیکن یہ مسئلہ فی الحال حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے سرِ دست ایک دوسرا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ ہمارے نوجوان اس پر توجہ فرمائیں گے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں