جمعرات، 11 اگست، 2022

گریبان کے بٹن کھلے رکھنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! کرتے کے گریبان کی بٹن کھُلی رکھنا کیسا ہے؟ کچھ لوگوں کو بولا گیا تو یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم اسی طرح رکھا کرتے تھے۔ اور کچھ ایسا بولتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی کے کرتے کی بٹن ہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ لہٰذا کیسے رکھنا چاہیے پوری کُھلی ہوئی یا پوری بٹن لگانا چاہیے؟صحیح کیا ہے؟ رہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : محمد صارم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : گریبان کے بٹن کھلے رکھنا صرف جائز عمل ہے۔ سنت یا مستحب نہیں۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول گریبان بند رکھنے کا تھا، لہٰذا مستقل سنت یہی ہے کہ گریبان کے بٹن کو بند رکھا جائے، نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا گریبان مبارک سینے پر تھا جیساکہ آج کل رائج ہے اور اس پر بٹن بھی تھے۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی لکھتے ہیں :
گریبان کی گھنڈی کا تکمہ نہ لگانا حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ معاویہ ابن قرۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : قال اتیت رسول اللہ ا فی رہطٍ من مزینۃ فبایعناہ وان قمیصہ لمطلق الازرار ای مفتوحہایعنی کان جیب قمیصہ غیرمشدود وکانت عادۃ العرب ان تکون جیوبہم واسعۃ فربما یشدونہا وربما یترکونہا مفتوحۃ ۔۱؂ لیکن یہ آپ کی دائمی عادت نہیں پس زید کا یہ کہنا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی قمیص کا اوپر کی گھنڈی کا تکمہ لگا کر کبھی گلے کو بند نہیں فرمایا محتاج دلیل ہے۔ البتہ اس حالت کو دیکھ کر معاویہؓ اور ان کے بیٹے نے گھنڈی کھلی رکھنے کی عادت کرلی تھی۔ (فتاوی محمودیہ : ١٠/٥٥)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتا پہنتے تھے اور کرتا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پسند تھا، کرتے کا بٹن کھلا رکھنا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نہیں تھا، بلکہ کبھی کبھار ایسا کرتے تھے؛ اس لیے اگر کوئی شخص کبھی کبھی کرتے کا بٹن اتباعِ سنت کی نیت سے کھلا رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے : عن أم سلمة قالت: کان أحب الثیاب إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القمیص، قال الملا علي القاري: فإنہ کان یحبہ للبسہ لا لنحو إہدائہ فہوأحب إلیہ لبسًا (شمائل الترمذي مع جمع الوسائل، ۱/۱۳۲، باب لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ط: اعزازیہ دیوبند)۔ (رقم الفتوی : 49297)

مفتی شبیر احمد قاسمی دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
گریبان کی گھنڈیوں کو کھلا رکھنا سنت، مستحب یا بزرگوں کا شعار نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے صرف ایک مرتبہ گریبان کی گھنڈیوں کو کھلا رکھنا ثابت ہے؛ لیکن یہ آپ کی دائمی عادت نہیں تھی؛ بلکہ ایک مرتبہ جو آپ کے گریبان کی گھنڈیاں کھلی ہوئی تھیں، وہ بھی کسی عارض کی وجہ سے کھلی ہوئی تھیں۔
نیز جملہ صحابہ کرامؓ میں سے بھی صرف حضرت معاویہؓ اور ان کے بیٹے سے اپنے گریبان کی گھنڈیوں کو کھلا رکھنا ثابت ہے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا گریبان جس دن کھلا رہ گیا تھا، معاویہ بن قرہ نے اتفاق سے اسی دن اسلام قبول کیا تھا، اس لئے ان کو وہ پسندآیا جس کی بنا پر وہ اپنا گریبان کھلا رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ دائمی عمل نہیں ہے، اس لئے پوری زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے صرف ایک مرتبہ گھنڈیوں کو کھلا رکھنے کے ثبوت سے اور صحابہ کے جم غفیر میں سے صرف دو صحابہ کے عمل کی وجہ سے گھنڈیوں کے کھلا رکھنے کو سنت یا مستحب کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ نیز اس فعل کو بزرگوں کا شعار کہنا بھی درست نہیں ہے، اس لئے کہ کسی بھی بزرگ کو ہمہ وقت اپنے گریبان کو کھلا رکھے ہوئے نہیں دیکھا گیا، یہ بات تو عام احوال کی ہے اور نماز میں اس طرح تمام گھنڈیوں کو کھلی رکھ کر نماز پڑھنا خلاف اولیٰ ہے۔ (فتاوی قاسمیہ : ٢٣/٤٨٣)

درج بالا تفصیلات سے یہ واضح ہوگیا کہ اصل سنت گریبان کے بٹن لگانا ہی ہے۔ کھلے رکھنا جائز ہے۔ البتہ ہمیشہ کھلے رکھنے کو ہی سنت سمجھنا درست نہیں۔

حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَا حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا عُرْوَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ نُفَيْلٍ: ابْنُ قُشَيْرٍ أَبُو مَهَلٍ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ : أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، فَبَايَعْنَاهُ وَإِنَّ قَمِيصَهُ لَمُطْلَقُ الْأَزْرَارِ، قَالَ: فَبَايَعْتُهُ، ثُمَّ أَدْخَلْتُ يَدَيَّ فِي جَيْبِ قَمِيصِهِ فَمَسِسْتُ الْخَاتَمَ، قَالَ عُرْوَةُ: فَمَا رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ وَ لَا ابْنَهُ قَطُّ إِلَّا مُطْلِقَيْ أَزْرَارِهِمَا فِي شِتَاءٍ وَلَا حَرٍّ وَلَا يُزَرِّرَانِ أَزْرَارَهُمَا أَبَدًا۔ (سنن أبي داود، رقم : ٤٠٨٢)

باب جیب القمیص ای ھذا باب فی ذکر جیب القمیص الکائن عندالصدروکأنہ اشار بھذا الی ماوقع فی حدیث الباب من قولہ ویقول باصبعہ ھکذا فی جیبہ فان الظاھرانہ کان لابس قمیص وکان فی طوقہ فتحۃ الی صدرہ وعن ھذا قال ابن بطال کان الجیب فی ثیاب السلف عندالصدر۔ (عمدۃ القاری : ۳۰۲/۲۱)

عن معاویۃ بن قرۃ عن ابیہ قال اتیت النبی ا فی رھط من مزینۃ فبایعوہ وانہ لمطلق الازار فادخلت یدی فی جیب قمیصہ فمسست الخاتم۔(فی جیب قمیصہ )قال السیوطی فیہ ان جیب قمیصہ کان علی الصدر کما ھوالمعتاد الآن فظن من لاعلم عندہ انہ بدعۃ ولیس کماظن۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۲۴۷/۸)

قال : أتیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم في رہط من مزینۃ فبایعناہ وإن قمیصہ لمطلق الأزرار أي مفتوحہا یعني کان جیب قمیصہ غیر مشدود…قال عروۃ: فما رأیت معاویۃ ولاإبنہ إلا مطلقي أزرارہما قط في شتاء ولاحر ولایزرر ان أزرارہما أبدًا کتب مولانا محمد یحي المرحوم من تقریر شیخہ قولہ (فما رأیت معاویۃ) وہذا وإن کان اختیاراً لما ہو خلاف الأولیٰ خصوصاً في الصلوۃ؛ لکنہما أحبا أن یکونا علی ما رأیا النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، وإن کان إطلاقہ أزرارہ إذ ذاک لمعارض ولم یکن ہذامن عامۃ أحوالہ صلی اﷲ علیہ وسلم، وذلک لما فیہ من قلۃ المبالاۃ بأمر الصلوۃ، إلا ان الکراہۃ لعلہا لا تبقي في حق معاویۃؓ ، وإبنہ لکون الباعث لہما حب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم وإتباعہ فیما رأیاہ من الکیفیۃ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس، باب في حل الأزرار، دار البشائر الإسلامیۃ ۱۲/۱۰۸-۱۰۹، تحت رقم الحدیث ۴۰۸۲، سہارنپور قدیم ۵/۵۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 محرم الحرام 1444

1 تبصرہ:

  1. لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ایسےہی بٹن کھول کر نماز پڑھنے کے لئے آجاتے جیسے کسی سے لڑائی کا ارادہ ہو

    جواب دیںحذف کریں