بدھ، 3 اگست، 2022

آب زم زم کی تجارت کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک مسئلہ آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ ایک صاحب زم زم امپورٹ کرتے ہیں اور اسے فروخت کر تے ہیں تو کیا اس طرح زم زم فروخت کیا جاسکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : آصف امان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زم زم ایک مباح اور جائز پانی ہے۔ لہٰذا اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے بشرطیکہ اسے باقاعدہ کسی برتن، بوتل وغیرہ میں محفوظ کرلیا جائے۔ ایسے پانی کو فقہ کی زبان میں ماء محرز (محفوظ کیا ہوا پانی) کہا جاتا ہے، جس کی تجارت درست ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ یہ شخص آبِ زم زم منگوا کر اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے تو پھر اس کا قیمتاً فروخت کرنا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

عن أبي بکر بن عبداﷲ بن مریم عن المشیخۃ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن بیع الماء إلا ما حمل منہ، وقال: وعلی ہذا مضت العادۃ في الأمصار ببیع الماء في الروایا والحطب والکلاء من غیر نکیر۔ (إعلاء السنن، باب بیع الماء والکلاء، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۱۴/ ۱۶۶)

لِأَنَّ الْمُعْتَمَدَ عِنْدَنَا أَنَّ شِرَاءَ الشِّرْبِ لَا يَصِحُّ وَقِيلَ إنْ تَعَارَفُوهُ صَحَّ وَهَلْ يُقَالُ عَدَمُ شِرَائِهِ يُوجِبُ عَدَمَ اعْتِبَارِهِ أَمْ لَا تَأَمَّلْ نَعَمْ لَوْ كَانَ مُحَرَّزًا بِإِنَاءٍ فَإِنَّهُ يُمْلَكُ۔ (شامی : ٢/٣٢٨)

لَا يَجُوزُ بَيْعُ الْمَاءِ فِي بِئْرِهِ وَنَهْرِهِ هَكَذَا فِي الْحَاوِي وَحِيلَتُهُ أَنْ يُؤَاجِرَ الدَّلْوَ وَالرِّشَاءَ هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ فَإِذَا أَخَذَهُ وَجَعَلَهُ فِي جَرَّةٍ أَوْ مَا أَشْبَهَهَا مِنْ الْأَوْعِيَةِ فَقَدْ أَحْرَزَهُ فَصَارَ أَحَقَّ بِهِ فَيَجُوزُ بَيْعُهُ وَالتَّصَرُّفُ فِيهِ كَالصَّيْدِ الَّذِي يَأْخُذُهُ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ وَكَذَلِكَ مَاءُ الْمَطَرِ يُمْلَكُ بِالْحِيَازَةِ كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٣/١٢١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 محرم الحرام 1444

1 تبصرہ: