ہفتہ، 18 اپریل، 2020

احادیث میں کرونا کے خاتمے کی پیشین گوئی ؟

*احادیث میں کرونا کے خاتمے کی پیشین گوئی ؟*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! سوشل میڈیا پر دو چار تحریریں گردش کررہی ہیں جن میں حدیث شریف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کرونا کی وبا کا خاتمہ ماہ مئی کے درمیان تک ہوجائے گا۔ تین دن پہلے جب یہ تحریر بندے تک پہنچی تو اس پر بندے نے درج ذیل تبصرہ کیا۔

مضمون میں خود یہ بات لکھی گئی ہے کہ اکثر علماء نے ان روایتوں کو صرف پھلوں پر آنے والی آفت پر محمول کیا ہے، لہٰذا بلاوجہ اکثریت کے موقف کو چھوڑ کر اسے وبائی امراض پر چسپاں کرکے ایڈونچر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیونکہ ظاہر سی بات ہے ایسی ہر نئی چیز عوام ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور محرر کی بڑی واہ واہی ہوتی ہے، لہٰذا ایسی تحریر کو فوری طور پر نظر انداز کردینا چاہیے، جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ پہلے سے اس کے متعلق قیاس آرائی کرکے احمقوں کی جنت میں رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں اور اس وبا سے محفوظ رہنے کے لیے دعاؤں اور احتیاطی تدابیر کا اہتمام کریں۔

آج الحمدللہ ہندوستان کے اکابر علماء کرام کی چند تحریریں اور آڈیو ملے جس سے بندے کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔

▪ہندوستان کے مشہور جید عالم دین، صوفی با صفا شیخ الحدیث مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم اپنے آڈیو میں فرماتے ہیں :

اس حدیث میں جس بیماری اور آفت کا تذکرہ ہے وہ پھلوں کی بیماری ہے۔ یہاں ہر بیماری اور ہر وبا مراد نہیں ہے۔ پھلوں کو جو بیماریاں ہوتی ہیں خاص کر کھجوروں کو وہ مراد ہے۔

▪نواسہ شیخ الاسلام، مفتی دارالافتاء مدرسہ شاہی مرادآباد، مفتی سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں :

باسمہ سبحانہ تعالی
اصل میں جس حدیث کو بشارت کے لئے دلیل بنایا گیا ہے اس کے سیاق وسباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کاتعلق مدینہ منورہ کے موسم کے اعتبار سے اس وقت سے ہے جس میں عموماً کھجور کا پھل اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور اس کی فصل بیچنا جائز ہوجاتا ہے، اور اس کی علامت کے طور پر طلوع ثریا کو ذکر فرمایاگیا ہے
یہ حدیث سارے عالم کے پھلوں کے لئے نہیں ہے
پس کسی اور جگہ پھل کے انتہا کو پہنچنے کا کوئی اور وقت بھی ہو سکتا ہے۔ اب بعض حضرات نے اس حدیث کو پھل کے موضوع سے ہٹا کر عام کردیا۔
پھر موجودہ حالات پر اس کاانطباق کرتے ہوئے ۱۲ مئی کی تاریخ بھی دفع وبا کے لئے طے کردی۔
اس کے متعلق احقر نے عرض کیا تھا کہ ایسی باتیں عوام میں پھیلانے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔
ایک تو یہ کہ وبا اس وقت ختم نہ ہوئی تو چہ می گوئیاں ہوں گی۔
دوسرے یہ کہ ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ پھیلے گا۔

واللہ اعلم

▪گجرات کے مشہور عالم دین، محقق، شیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد رشید، شیخ الحدیث حضرت طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مفصل اور مدلل تحقیق پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

اس سے پتہ چلا کہ کورونا وائرس کو ثریا نامی ستارہ کے طلوع وغروب سے مربوط کرنا درست نہیں ہے۔

اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پھلوں کا بھی آفات سے محفوظ ہونا طلوع ثریا کے ساتھ مؤکد نہیں ہے، وہ تو بطور علامت یا غالب حالات کے اعتبار سے ہے، تو پھر (کورونا) کی بلاء سے چھٹکارا پانے کو کیسے مضمون لکھنے والے نے اس تاریخ کے ساتھ یقینی طور پر مان لیا۔

♦️الحاصل : ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی خلق پر رحم وکرم فرماکر اس بلا کو پوی انسانیت سے جلد از جلد دور فرمادے، ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، اس لئے ادھر اودھر کے زمین آسمان کے قلابے ملانے کے بجائے بس اسی کی طرف رجوع فرمائیں اور استغفار ودعا کو لازم پکڑ لیں (ادعونی استجب لکم) اور " من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ھم فرجا ومن کل ضیق مخرجا ۔۔۔" پر یقین کرتے ہوئے۔

ھذا ما عندی ، والعلم عند اللہ

▪سورینام (امریکہ) میں مقیم دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز فارغ التحصيل جید مفتی، مفتی شکیل منصور قاسمی رقم طراز ہیں :

حدیث صحیح الاسناد ہے۔
معانی کا لبادہ غلط پہنا دیا گیا ہے، یہ حدیث “نھی عن بَيْعِ الثِّمارِ حتَّى يَبدُوَ صَلاحُها للأكلِ” کے ہم معنی ہے۔
درخت پہ کھجور لگتے ہی لوگ فروختگی شروع کردیتے تھے۔کھجور توڑتے تک اس موسمی بیماری لگ جاتی تھی اور یوں کھجور کار آمد نہ ہوتی تھی۔ نتیجۃً بائع مشتری کے مابین تنازع طول پکڑنے لگا تو حضور صلی اللہ علیہ نے کھجور پختہ اور کار آمد ہونے سے قبل درخت پہ بیع کو منع فرمادیا۔
حجاز مقدس کے علاقے میں کھجور گرمی سیزن میں پختہ ہوتی ہے اور گرمی کی شدت ستارہ ثریا طلوع ہوتے ہی زور پکڑ لیتی ہے۔
یہ حدیث کا اصلی مفاد ہے۔
اسے کورونا کے ساتھ زور زبردستی کا چپکا دیا گیا ہے۔ تجدد پسندی اور ہر چیز میں جدت طرازی بری بلا ہے۔

خلاصہ یہ کہ سوشل میڈیا پر جو تحریریں وائرل ہیں جن میں بارہ مئی تک کرونا کے ختم ہونے کی بات کی گئی ہے ان پر اعتماد کرکے خوش فہمی بلکہ غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں اور ماہر اطباء کی ہدایات پر عمل کریں کہ یہی شریعت کا تقاضہ ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، کرنے کے کاموں پر توجہ دینے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، فضولیات اور لغویات سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں