جمعرات، 23 اپریل، 2020

انتظامیہ، لیڈران اور ڈاکٹروں سے صاف صاف باتیں

*انتظامیہ، لیڈران اور ڈاکٹروں سے صاف صاف باتیں*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
  (امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! کرونا وائرس کو لے کر شہر میں جو حالات بن رہے ہیں، ان سے متعلق بندہ بہت فکرمند اور رنجیدہ ہے۔ مختلف مسائل ہیں جن سے عوام کا ایک بڑا طبقہ سخت پریشان اور بالکل بے حال ہوتا جارہا ہے۔ اگر فوری طور پر ان کا سدباب نہیں کیا گیا تو شہر کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

*انتظامیہ کی کارکردگی*
جن افراد کو کورنٹائن کیا گیا ہے ان کی خبر گیری میں انتہائی غفلت سے کام لیا جارہا ہے، انہیں جیسے تیسے کھانا تو پہنچ جارہا ہے، لیکن دیگر سہولیات سے یہ افراد محروم ہیں، پردہ نشین خواتین اور بچوں کے مسائل ہیں، کیا ان پر کماحقہ توجہ دی جارہی ہے؟ دو دن بعد رمضان المبارک ہے اگر یہی حال رہا تو ان کی عبادات کا کیا ہوگا؟ ان کی صحیح معلومات لینے اور ان سب باتوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کرونا کے پازیٹیو مریضوں کی حالت بھی انتہائی تشویشناک ہے، انہیں ان کی رپورٹ تک نہیں بتائی جارہی ہے، خواہ مریض ڈاکٹر ہی کیوں نا ہو۔ بس صرف پازیٹیو بتاکر ان کے گھروالوں کو اٹھاکر کورنٹائن کردیا جاتا ہے۔ رپورٹ نہ بتانے کے پیچھے کیا حکمت ہے یہ بھی تشویشناک ہے۔ ان مریضوں کو الگ تھلگ کرکے گویا قید کردیا گیا ہے، ورنہ علاج کے نام پر انہیں دن میں صرف ایک کیپسول دیا جاتا ہے، وہ بھی مانگنے پر۔ جو لوگ ان کی نگرانی پر مامور ہیں وہ انہیں آتا دیکھ کر بھاگنے لگتے ہیں۔ آپ بتائیں جب ان مریضوں کے ساتھ ایسا بے رُخی چھوت چھات کا معاملہ کیا جائے گا تو ان کا مرض اور بڑھے گا یا کم ہوگا؟ یہ افراد زندگی سے مایوس نہیں ہوں گے؟ ان کے گھر والے جو خود بھی کورنٹائن کا عذاب جھیل رہے ہیں وہ مزید فکرمند نہیں ہوں گے؟ کیا یہ خوف ودہشت کا ماحول انہیں بھی کرونا کا مریض نہیں بنادے گا؟ کھانا جیسے تیسے جمیعت کی طرف سے آرہا ہے۔ ایسے حالات میں جمیعت کیا کیا اور کہاں تک کرے؟ غریبوں تک ریلیف پہنچائے یا کرونا متاثرین کو کھانا پہنچائے؟ جبکہ حقیقتاً ریلیف اور مریضوں کی دیکھ بھال کی پوری ذمہ داری شہری انتظامیہ کی ہے، اور ان کا کام مخیرانِ قوم کے تعاون سے جمیعت کررہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ صرف کرونا متاثرین کو دوسروں سے الگ کردینا چاہتی ہے تاکہ دوسروں میں یہ مرض نہ پھیلے، پھر چاہے متاثرین مرجائیں انہیں اس کی پرواہ نہیں۔

*ایک اور دردناک واقعہ*
ابھی جڑواں بچوں سے حاملہ خاتون کی شہادت کا دل چیر دینے والا سانحہ ہمارے سامنے سے ہٹا بھی نہیں تھا کہ ایک دوسرا دردناک حادثہ پیش آگیا۔ ہماری کوہ نور مسجد کے مؤذن حافظ شہباز جو چھوٹا قبرستان کے پاس رہتے ہیں، آج صبح ان کے والد صاحب کی پتھری کی وجہ سے طبیعت خراب ہوئی، وہ انہیں لے جانے کے لئے رکشہ کی تلاش میں نکلے تو کوئی رکشہ والا تیار نہیں ہوا، ایک رکشہ والے تیار ہوئے تو اس میں پیٹرول ہی نہیں تھا، کیونکہ انتظامیہ نے پیٹرول بند کروا رکھے ہیں، پھر ٹووہیلر سے پیٹرول نکال کر رکشے میں ڈالا گیا، اس کے بعد وہاں سے روانگی ہوئی، پہلے مریض کو سابق میئر عبدالمالک کے لگائے ہوئے کیمپ میں لے گئے، جہاں مریض ان ڈاکٹروں کے کنٹرول سے باہر ہوچکے تھے چنانچہ انہیں جونے فاران جانے کا مشورہ دیا گیا۔ وہاں سے نکلنے کے بعد بند راستوں کی وجہ سے کافی تاخیر کے بعد یہ حضرات جونے فاران پہنچے، جہاں مریض کا کوئی ٹریٹ مینٹ نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں سیدھے سول ہسپتال جانے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد جب ڈاکٹر نے مریض کو دیکھا تو کہا کہ یہاں پہنچنے میں آپ لوگوں نے تاخیر کردی۔ اگر وہیں شہر میں ان کا ٹریٹ مینٹ ہوجاتا تو کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ اور مریض نے وہیں دم توڑ دیا۔ لاک ڈاؤن میں اس طرح کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں۔ اب ان سب کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے؟ راستہ بند کرنے والی عوام اور ڈپارٹمنٹ کو یا بروقت طبی امداد نہ دینے والے ڈاکٹروں کو؟

*پولیس کا سلوک*
مؤذن صاحب کے چچا حافظ صادق اپنے بڑے بھائی کے پیچھے گاڑی لے کر نکلے تو انہیں چندنپوری گیٹ پر پولیس نے روک لیا، اس وقت سوا گیارہ بج رہے تھے جو چھوٹ کا وقت ہے۔ انہوں نے صفائی پیش کی کہ وہ مریض کے ساتھ جارہے ہیں اس کے باوجود پولیس نے ان کی ایک نہ سُنی اور چار پولیس والوں نے مل کر انہیں بُری طرح مارا کہ وہ بے چارے لنگڑا کر چل رہے ہیں۔ جبکہ دو دن بعد رمضان المبارک میں انہیں تراویح بھی پڑھانا ہے۔ ایک تو بھائی کے اچانک انتقال کا غم دوسرے ان پر پولیس کا قہر۔ غریب عوام تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کی بددعا سیدھے عرشِ الہی کو جاکر ہلادے گی۔ اور پھر وہاں سے جب انصاف ہوگا تو خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انتظامیہ، لیڈران اور ڈاکٹروں کی دنیا وآخرت کو برباد کرکے رکھ دے گا۔

*بعض ڈاکٹروں کا حال*

بعض ڈاکٹر حضرات جو اس بیماری سے خائف ہوکر گوشہ عافیت میں چلے گئے ہیں اور اپنے فرض منصبی کو بھول بیٹھے ہیں ان کا کیا؟ کیا یہ حضرات مریضوں کو صرف گاہک سمجھتے ہیں کہ جب من میں آیا معاملہ کیا اور جب من میں آیا انکار کردیا۔ یعنی جب تک معاملہ فائدہ کا ہوگا تو مریضوں کا علاج کیا جائے گا۔ جب معاملہ قربانی دینے کا آئے گا تب انہیں بے یار ومددگار چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا اس باوقار پیشے کا یہی تقاضا ہے؟ کیا ایسے حالات میں شریعت کا یہی حکم ہے کہ جب قوم کو آپ کی ضرورت ہوگی اس وقت آپ انہیں اکیلا چھوڑ دیں؟ بلاشبہ ایسی مجرمانہ غفلت اور مطلب پرستی میں پڑے ہوئے ڈاکٹر حضرات اللہ کے یہاں قابل گرفت ہوں گے، جہاں ہر مظلوم کو انصاف ملے گا اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

*صحافیوں کی ذمہ داری*
صحافی حضرات تو صرف کرونا مریضوں کی تعداد سب سے پہلے وائرل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اسے ہی صحافت سمجھ رہے ہیں، جبکہ ایسے حالات میں ان کا کام یہ تھا کہ عوامی پریشانیوں کو جانتے اور ارباب اقتدار تک ان کے درد کو پہنچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے۔ لہٰذا ان پر بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے فرض منصبی کو پہچانیں اور اسے کماحقہ ادا کرنے کی کوشش کریں، ورنہ غفلت اور سیاسی لیڈران کی چاپلوسی والی صحافت یقیناً آپ کے لیے دنیا وآخرت سخت نقصان کا باعث بنیں گی۔

*لیڈران کی غفلت*
شہر میں جب کرونا متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ایسے حالات میں صاف صفائی اور جراثیم کش دواؤں کے چھڑکاؤ میں مزید تیزی آنی چاہیے تھی، لیکن اس کے برعکس شہر کے ریڈ زون تک عام دنوں میں ہونے والی صفائی سے بھی محروم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہوگئی ہے، جو مزید بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔ اب اس کا ذمہ دار کون ہے؟ بلاشبہ یہ لیڈران کی غفلت کا ہی نتیجہ ہے۔

*عوام کا کام*
ایسے حالات میں عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ گھروں میں رہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے قانون کی حد میں رہتے ہوئے ان سے جو کچھ ہوسکے کریں۔ اور رو رو کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں اور حالات کے سدھرنے کی دعائیں کریں۔ یقیناً یہی وہ در ہے جہاں تمام مسائل حل ہوتے ہیں۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے تمام مسائل کو حل فرمائے۔ اور جلد از جلد حالات کے سدھرنے کے فیصلے فرمائے۔ آمین

11 تبصرے:

  1. بہت اچھا مضمون ہے مگر مفتی صاحب سے گذارش ہیکہ... عوام کے لئے بھی کچھ لکھے بلاوجہ دواخانہ میں ایک مریض کے ساتھ 3 لوگوں کی جانے کی کیا ضرورت ہے ..... ماسک پہن کر باہر نہیں نکل رہے ہیں.... جو ڈاکٹرس مریض دیکھ رہے ہیں ان کی بات بھی نہیں مان رہے ہیں.... ڈاکٹروں کی بات کو نظر انداز کررہے ہیں .. ایسے میں ڈاکٹر کا بھی دل بیٹھ جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب حضرت آپکی آواز پر لبیک

    جواب دیںحذف کریں
  3. کچھ لوگ کا کہنا ہیں کی مریض کے ساتھ تین چار لوگوں کا جانا ٹھیک نہیں ہیں ان سے سوال کرے کیا کوئی مریض تمھارے یہاں ہیں کیا پھر سمجھ میں آئےگا جب پوری فیمیلی دوڑ بھاگ کرےگی

    جواب دیںحذف کریں
  4. السلام علیکم
    انتظامیہ کی ذمہ داری اور عوام کا تعاون لازم و ملزوم بات ھے.
    آپ کا بیباک قلم قابل مبارک باد ھے ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. السلام علیکم
    انتظامیہ کی ذمہ داری اور عوام کا تعاون لازم و ملزوم بات ھے.
    آپ کا بیباک قلم قابل مبارک باد ھے ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  6. السلام علیکم
    انتظامیہ کی ذمہ داری اور عوام کا تعاون لازم و ملزوم بات ھے.
    آپ کا بیباک قلم قابل مبارک باد ھے ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  7. حضرت پہلے کسی بھی معاملے کی مکمل۔جانکاری لے لیا کریں پھر قلم۔کو جنبش دیا کریں
    کل میری ڈاکٹر زاہد رںانی سے بات ہوئی پرسوں ڈاکٹر فیصل سلیمان سر سے بات ہوئی ان۔دونوں کی ڈیوٹی جیون ہاسپٹل میں لگی ہے یہ دونوں ںذات خود مریضوں کا چیک اپ کررہے ہیں اور اپنی نگرانی میں دوائیں دے رہے ہین۔ ایک نہیں بلکہ کئی کئی قسم کی دوائیں تینوں وقت مل رہی ہیں
    who کی گائیڈ لائن کے مطابق تین فٹ کے فاصلے سے مریض کو رکھا جائے
    اور ڈاکٹر بھی انسان ہے اسے بھی یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے اس لئے اجتیاط کیا جا رہا ہے ۔

    کمشنر کے آدیش کے مطابق کسی بھی سردی کھانسی بخار والے مریضوں کو یرائیویٹ دوا نا دیجائے اس لئے ایسے مریضوں کا سرکاری دوخانوں میں بھیجا جاتا ہے

    الحمدللہ شہر کے ڈاکٹر حضرات کے دل میں بہت رحمدلی ہے اپ سے گزارش ہیکہ اسی شہر کے ندی کے اس پار ڈاکٹروں سے علاج کروائیں تب پتہ چلے گا کہ ہم کتنی خدمت کررہے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  8. آنجناب واٹس ایپ پر آجائیں، ان شاء اللہ ہر سوال کا جواب دیا جائے گا۔

    جواب دیںحذف کریں