پیر، 27 اپریل، 2020

شہری حالات کے تناظر میں چند اہم گذارشات

*شہری حالات کے تناظر میں چند اہم گذارشات*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں میں جتنی اموات کرونا وائرس سے متاثر مریضوں کی نہیں ہورہی ہیں اس سے زیادہ اموات کرونا کی وجہ سے ہورہی ہے۔ یعنی گمان ہوتا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے نام پر کچھ ایسے فیصلے لیے گئے ہیں جو بجائے شہریان کے حق میں مفید ثابت ہونے کے انہیں سخت نقصان پہنچانے کا کام کررہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے مشہور شخصیات اور قائدین کی اموات نے شہریان کو انتہائی غمزدہ، خوفزدہ اور بے حال کردیا ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے احتیاطی تدابیر کے نام پر ہاٹ اسپاٹ علاقوں کو سیل کردیا گیا، اور راستے بند ہونے کی وجہ سے متعدد مریضوں کو بروقت ہسپتال نہیں پہنچایا جاسکا۔ یہی ان کی موت کا سبب بنا۔ پھر اس میں عوام کے ایک بڑے طبقہ نے از خود اپنی گلی محلوں کو بند کرلیا جس کی وجہ سے یہ لوگ بھی کسی نہ کسی درجہ میں ان کی موت کے ذمہ دار ہوکر گناہ گار ہوئے ہیں۔ اب پانی سر سے اوپر ہورہا ہے، لہٰذا پہلی فرصت میں بند راستوں کو مکمل طور پر کھولا جائے۔

بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں کا کوئی بدل فراہم کیے بغیر انہیں بند کروا دیا گیا۔ پھر بعض ہسپتالوں کو کھولنے کی اجازت بھی دی گئی تو دسیوں پابندیوں کے ساتھ۔ لاکھوں کی آبادی والے اس شہر میں جب غیر فطری طریقہ اختیار کرتے ہوئے ہسپتالوں کو بند کردیا جائے گا، اور جاری رہنے والے ہسپتالوں میں دسیوں پابندیاں لگادی جائیں گی تو کیا ہوگا؟ بروقت کماحقہ طبی امداد نہ ملنے پر اموات نہیں ہوں گی تو اور کیا ہوگا؟ لہٰذا اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ تمام ہسپتالوں کو کھلوایا جائے اور ان میں حسب معمول مریضوں کے علاج ومعالجہ کا پورا بندوبست کیا جائے۔

صحافی حضرات اور ان کی خبریں فوری طور پر پھیلانے والوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ انتہائی دانشمندی سے کام لیں، اور درج ذیل احادیث کو پیش نظر رکھیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے کسی بھائی کی طرف ڈرانے والی نظر سے دیکھے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ڈرائے گا۔ (بیہقی)

ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا : خوشخبری دینا، نفرت مت پھیلانا، آسانی پیدا کرنا، مشکلات میں نہ ڈالنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا۔ (مسند احمد)

اسی کے ساتھ ایک واقعہ بھی سنتے چلیں کہ ایک بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے کئی دانت گرگئے ہیں، وہ بڑا پریشان ہوا کہ خواب میں میں نے دانت گرتے ہوئے دیکھے، اس نے صبح تعبیر کرنے والے کو بتایا، اب وہ تعبیر کرنے والا ذرا  کا بندہ تھا، اس نے خواب سن کر کہا : بادشاہ سلامت ! آپ کے دانت گرے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے سامنے اپنے کئی رشتہ داروں کو مرتے دیکھیں گے، اب جیسے ہی اس نے تعبیر بتائی تو بادشاہ کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے کہا، اسے دوچار جوتے لگا دو اور یہاں سے بھگا دو، یہ ایسی بری تعبیر بتا رہا ہے، اس کے بعد وہ پھر بھی خواب کی وجہ سے پریشان تھا کہ آخر اس کی کوئی نہ کوئی تعبیر تو ہوگی، چنانچہ ایک اور بندے کو بلایا گیا، وہ بندہ ذرا سمجھدار تھا، اس کوبات کرنے کا سلیقہ آتا تھا، لہٰذا جب اس نے خواب سنا تو اس نے کہا : بادشاہ سلامت ! یہ بہت اچھا خواب ہے، آپ کو مبارک ہو، بادشاہ نے پوچھا : کیسے؟ اس نے کہا : آپ اپنے تمام رشتہ داروں سے زیادہ لمبی عمر پائیں گے، بادشاہ اس تعبیر سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ اس کو انعام دے کر روانہ کر دو۔

ذکر کردہ واقعہ میں خواب کی تعبیر تو ایک ہی ہے لیکن جس نے اسے مثبت انداز میں بیان کیا تو سامنے والے پر بھی اس کا اچھا اثر ہوا اور خود بیان کرنے والے کا بھی فائدہ ہوا۔

موجودہ حالات میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جیسے ہی ہی لاک ڈاؤن کی تاریخ ختم ہونے کا وقت قریب آنے لگتا ہے، بار بار ایسی خبریں پھیلائی جاتی ہیں جس میں حتمی طور پر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ بس صرف اٹکلیں ہوتی ہیں، یہ ہوگا وہ ہوگا۔ فلاں نے یہ کہا، فلاں نے وہ کہا۔ جسے پڑھ کر سوائے ذہنی تناؤ بڑھنے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسی خبروں کے شیئر کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کردیا جائے۔ صرف انتہائی اہم اور حتمی فیصلے والی خبروں کو پھیلایا جائے۔

خلاصہ یہ کہ ان حالات میں خبریں لکھنے والے مثبت پوائنٹ کو ہائی لائٹ کریں اور خبروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے والے انداز میں پیش نہ کریں کہ یہی شریعت کا حکم اور حالات کا تقاضا ہے۔

میت کا پکارا کرنا کوئی فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ایک جائز عمل ہے، کارخانے بند ہونے کی وجہ سے اسپیکر پر کیے جانے والے پکارے کی آواز دور تک پہنچ رہی ہے۔ ایک ساتھ کئی کئی پکارے سننے کی وجہ سے شوگر، پریشر، اور قلبی امراض کے مریضوں پر بہت زیادہ اثر ہورہا ہے، اور ان کے مرض میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے، اور بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اموات ہورہی ہیں۔ لہٰذا حالات سازگار ہونے تک مصلحتاً یہ سلسلہ بھی موقوف کردینا بہتر ہے۔ رشتہ داروں تک فون کال کے ذریعے خبر پہنچادی جائے، ویسے بھی احتیاطی تدابیر کا تقاضا ہے کہ تدفین میں زیادہ افراد شریک نہ ہوں۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ شہر عزیز مالیگاؤں پر اپنا خصوصی کرم فرمائے، اور مہلک وبا کی تباہ کاریوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں