اتوار، 6 نومبر، 2022

اے جی اے (AGA) ایپ کے ذریعہ پیسے کمانا

سوال :

مفتی صاحب امید ہیکہ آپ بخیر وعافیت ہونگے۔
ایک ایپ AGA نام کا بہت تیزی سے نوجوان بلکہ کئی سارے لوگ اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس ایپ میں کچھ چیزیں ہوتی ہیں جن کو خریدنا پڑتا ہے لیکن وہ چیز ہمیں ملتی نہیں ہے مثلاً اسمیں ایک موبائل ہے جسکی قیمت 7500 روپے ہیں اسکو ہم نے خریدا وہ چیز تو ہم کو نہیں ملے گی مگر کمپنی روزانہ 3500 روپے دیتی ہے 5 دن تک جو تقریباً 17500 ہوتے ہیں۔ جو چیز جتنی مہنگی ہوگی اس کے اوپر روزآنہ اتنے زیادہ پیسے ملیں گے دو ماہ تک یا تین ماہ تک۔ اسی طرح اگر کوئی ہمارے ذریعہ اس ایپ کا ممبر بنتا ہے تو اس کی خریدی پر بھی ہمیں کچھ رقم ملتی ہے۔ تو کیا ایسے ایپ سے چیز خریدنا اور نفع اٹھانا صحیح ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی محمد حنیف ملی، نوگاؤں، اورنگ آباد)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو صورتیں بیان کی گئی ہیں یہ سب سودی معاملات ہیں، یہ تجارت، مضاربت وغیرہ بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ جب خریدی ہوئی چیز خریدنے والے کے قبضہ میں ہی نہیں آئی ہے اور نہ ہی اسے دوبارہ فروخت کیا گیا ہے تو پھر جمع کرائی ہوئی رقم پر اضافہ کس بات کا ہے؟ یہ بلاشبہ سودی معاملہ ہے کہ بظاہر خریدنے والے سے ایک مخصوص رقم لے کر اسے اضافہ کے ساتھ لوٹایا جارہا ہے۔ اور یہ ایک فراڈ اور دھوکہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا، کچھ دن چند ممبران کو اضافہ کے ساتھ ان کی رقم دی جائے گی، اس کے بعد جب بڑی تعداد میں لوگ پیسے جمع کریں گے اور ایک موٹی رقم جمع ہوجائے گی تو یہ ساری رقم لے کر فرار ہوجائیں گے۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ انٹرنیٹ کے اس دور میں آئے دن اس طرح کے ایپ نئے نئے نام اور الگ الگ جال کے ساتھ منظرِ عام پر آتے ہیں، اور چند ہی دنوں میں عوام کی ایک بڑی رقم لے کر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں، ایسے ایپس کہاں سے ہینڈل کیے جارہے ہیں، اس کی ہیڈ آفس کہاں ہے؟ اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ان پر کوئی قانونی کارروائی بھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس طرح کے ایپ سے بالکل دور رہیں اور اپنی دنیا وآخرت برباد ہونے سے بچائیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے اس ایپ سے اپنی جمع کردہ رقم سے زیادہ وصول کرلیا ہے تو وہ اس زائد رقم کو بلانیتِ ثواب غرباء اور مساکین میں تقسیم کردیں، اس لیے کہ یہ زائد مال ان کے لیے حلال نہیں ہے۔

کل قرض جر منفعۃ فہو ربا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ۱۰؍۶۴۸ بیروت)

عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔ (صحیح مسلم، رقم : ۱۵۹۸)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ربیع الآخر 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں