اتوار، 13 نومبر، 2022

مدارس کے طلبہ سے شادی وغیرہ میں خدمت لینا

سوال :

ایک سوال ایسا ہے کہ چند شادیوں میں مدارس کے بچوں کو بلواکر مہمانوں کی خدمت کا کام لیا جا رہا ہے، پچاس سے لے کر سو بچے تک بلائے گئے، یکے بعد دیگرے کئی شادیوں میں ایسا کیا گیا مفتی صاحب، مدارس کے بچوں سے اسطرح شادیوں میں کام لینا کہاں تک صحیح ہے؟ اگرچہ کہ انہیں معاوضہ دیا جائے۔ براہ کرم جواب عنایت فرما کر ہمیں مستفیض فرمائیں۔ شکریہ
(المستفتی : حافظ عزیز الرحمان بجرنگ واڑی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تعلیمی اوقات میں جبکہ طلبہ کا تعلیمی حرج بھی ہو ان سے مدرسہ کے علاوہ کوئی کام لینا مثلاً انہیں ولیمہ وغیرہ کی تقریبات میں مہمانوں کی خدمت کے لیے لے جانا درست نہیں ہے۔ خواہ انہیں معاوضہ دیا جائے یا نہ جائے، ہر دو صورت میں یہ عمل درست نہیں ہے۔

تعلیمی اوقات کے علاوہ بالغ طلبہ سے ان کی مرضی کے ساتھ اور نابالغ طلبہ سے ان کے سرپرستوں کی صراحتاً یا دلالۃً اجازت کے ساتھ اگر یہ کام لیا جائے تو پھر اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ خواہ انہیں معاوضہ دیا جائے یا نہ دیا جائے دونوں درست ہے۔

وَفِيهِ عَنْ الْخِزَانَةِ : إذَا آجَرَ الْوَصِيُّ أَوْ الْأَبُ أَوْ الْجَدُّ أَوْ الْقَاضِي الصَّغِيرَ فِي عَمَلٍ مِنْ الْأَعْمَالِ فَالصَّحِيحُ جَوَازُهَا وَإِنْ كَانَتْ بِأَقَلَّ مِنْ أُجْرَةِ الْمِثْلِ اهـ: أَيْ لِأَنَّ لِلْوَصِيِّ وَالْأَبِ وَالْجَدِّ اسْتِعْمَالَهُ بِلَا عِوَضٍ بِطَرِيقِ التَّهْذِيبِ وَالرِّيَاضَةِ فَبِالْعِوَضِ أَوْلَى۔ (شامی : ٥/٤١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ربیع الآخر 1444

3 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. کچھ مدرسوں میں پڑھائی کے دوران بچوں سے اساتذہ اپنے گھر کا کام کرواتے ہیں یا مدرسہ کا ہی کام کرواتے ہیں جس سے بچوں کا پڑھائی کا نقصان بھی ہوتا ہے ان کے بارے میں کیا رائے ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. سب سے پہلے مدارس سے قرآ ن خانی بند کروائی جائے اس سے طلبہ کا بھت نقصان ہو تا ہے جو صرف مدرسے کے مہتمم کا بہت فائدہ ہو تا ہے

    جواب دیںحذف کریں