اتوار، 5 فروری، 2023

فرض نماز اہم یا دعوت و تبلیغ؟ تفصیلی جواب

سوال :

مفتی صاحب! ایک تبلیغی جماعت کے عالم صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دعوت و تبلیغ كا كام چهوڑنا نماز چهوڑنے سے زیاده بڑا گناه ہے۔ کیا ان کی بات درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شہزاد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دعوت و تبلیغ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس سلسلے میں اکابر ارباب افتاء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم یہاں من وعن نقل کرتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
فی نفسہ دعوت وتبلیغ کا کام فرض کفایہ ہے اور جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں تبلیغ سے پورے دین کی تبلیغ مراد ہے نہ کہ صرف یہی مروجہ دعوت وتبلیغ کا کام، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ․ ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (اور لوگوں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں) یہ الگ بات ہے کہ تبلیغ دین کے مختلف اہم شعبوں میں مثلاً تعلیم وتدریس، تزکیہ نفوس، وعظ وتقریر کی طرح دعوت وتبلیغ بھی ایک شعبہ ہے، نیز اگر تمام لوگ دعوت وتبلیغ سے جڑجائیں تو دین کے دیگر شعبوں اور دنیوی ضروری امور مثلاً تجارت، کھیتی باڑی، ملازمت، علاج ومعالجہ وغیرہ کیسے انجام پائیں گے، اس لیے جس طرح دیگر شعبوں سے جڑنا فرضِ عین نہیں اسی طرح دعوت وتبلیغ سے جڑنا بھی فرض عین نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 159241)

دارالعلوم دیوبند کا ایک اور فتوی ملاحظہ فرمائیں :
بہ قدر ضرورت دین سیکھنا فرضِ عین ہے اور دین کی نشر واشاعت فرضِ کفایہ ہے، ”تبلیغی جماعت“ بھی مدارس اور مکاتب کی طرح دین سیکھنے سکھانے کے مفید ذرائع ہیں، اگر کوئی شخص ”تبلیغی جماعت“ کے علاوہ کسی اور طریقے سے دین سیکھنے یا سکھانے میں مصروف ہے، ایسا شخص محض ”تبلیغی جماعت“ میں نہ جانے کی وجہ سے شرعاً قابل ملامت نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 60614)

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نور اللہ مرقدہ نے نے لکھا ہے :
تبلیغ دین ہرزمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے۔ جہاں جتنی ضرورت ہواسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی۔

مفتی حمید اللہ جان رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے :
مطلق تبلیغ دین ہر زمانے میں فرض کفایہ ہے اور اس زمانے میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اس قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جتنی اہلیت ہوگی اس کے حق میں اس قدر ذمہ داری ہوگی لیکن مروجہ طریقہ تبلیغ جس کی بنیاد مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ نے رکھی ہے نہ فرض ہے نہ واجب ہے نہ سنت ہے اور نہ ہی اصطلاحی مستحب ہے ،کیونکہ فقہاء نے مستحب کی تعریف کی ہے ''مااحبہ السلف'' اور مروجہ طریقہ نہ ہی سلف میں تھا اور نہ ہی مولانا الیاس رحمہ اللہ سلف میں سے ہیں، بلکہ اس کو ایک اچھی ایجاد کہہ سکتے ہیں۔ (ارشاد المفتین : ١/٤٦٥)

حضرت مولانا مفتی عبدالحق حقانی رقم طراز ہیں :
تبلیغِ دین فرض کفایہ ہے۔ خلقِ خدا کو اوامر کی دعوت دینا اور نواہی سے منع کرنا شرعاً فرض کفایہ ہے جو کہ بعض کے انجام دینے سے کل کا انجام فارغ ہوجا تا ہے ،فرض عین کی رائے رکھنا خطا پر محمول ہے تاہم اپنے آپ کو رذائل سے پاک کرنا فرض عین ہے۔ (فتاوی حقانیۃ : ۲/٦٥٢)

مفتی شبیر احمد قاسمی تحریر فرماتے ہیں :
بقدر ضرورت دین سیکھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہر شخص کے ذمہ فرض عین ہے، رہا تبلیغ کرنا یعنی مسلمانوں کو خیر اور بھلائی کی دعوت دینا اور برائیوں سے روکنا حضور ﷺ کے لائے ہوئے احکامات وہدایات ان تک پہنچانا تو فرض عین نہیں؛ بلکہ فرض کفایہ ہے، جس کا ہر مؤمن اپنی اپنی اہلیت اور صلاحیت کے موافق مکلف اور ذمہ دار ہے؛ اس لئے کہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک قسم ہے اور یہ فروض کفایات میں سے ہے۔ (فتاوی قاسمیہ : ٤/٣٥١)

مفتی سلمان منصور پوری لکھتے ہیں :
مسلمانوں کی دینی اصلاح کے لئے فکر کرنا امت پر فرض کفایہ ہے، البتہ یہ اصلاح کس طرح کی جائے اس کیلئے کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے، موجودہ دور میں تبلیغی جماعت کے ذریعہ جو اصلاحی محنت ہورہی ہے وہ بھی من جملہ طریقوں میں سے ایک ہے، اور تجربہ سے اس کا نفع بخش ہونا ثابت ہے۔ (کتاب النوازل : ٢/٢٤١)

حضرت مولانا عبدالشکور ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ کی تبلیغی تحریک میں تعلیم وتعلم اور اصلاح وصلاح کے دونوں پہلوؤں کی رعایت ہے، اگر حدود شرعیہ اور شرائط وآداب کو ملحوظ رکھ کر اس میں حصہ لیا جائے تو منجملہ دوسرے طرق تبلیغ کے یہ طریقہ بھی مفید اورمستحسن ہے اوراس کے ثمرات وفوائد ظاہر وباہر ہیں لیکن تعلیم وتعلم یااصلاحِ اخلاق کے لئے ہر مسلمان پر گھر سے باہر نکلنا اورسفر کرنا فرض نہیں ہے، بس اس قدر ضروری اورفرض ہے کہ دینی ضروری علم حاصل کرے اور اپنے اخلاق کی درستگی کی کوشش میں لگارہے، اس کا جوطریقہ بھی میسر ہو اس پر عمل کرنے سے یہ فرض ادا ہوجائے گا، فرائض کا علم حاصل کرنا فرض ہے اور واجبات کا واجب اورسنن ومستحبات کا سنت ومستحب ہوگا البتہ جس شخص کے لئے دوسرا طریقہ اپنی اپنی دینی ضروریات کے سیکھنے کا میسر نہ ہوسکے، اس کے لئے اسی طریقہ کو فرائض وواجبات کی حدتک سیکھنے کے لئے ضروری قرار دیا جائے گا اور باقی کے لئے مستحب وسنت اور ہر مسلمان پر بقدر اس کے علم کے لازم ہے کہ وہ اپنے توابع اورمتعلقین ِاہل وعیال کو تبلیغ ِدین کرتا رہے اوراحکام ِشریعت بتلاتا اور اس پر عمل کی تاکید کرتا رہے اورہر وقت ’’کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ‘‘کو پیش ِ نظر رکھ کر اپنی مسئولیت کا خیال رکھے اپنے گرد وپیش اور اپنے ماحول میں بقدر استطاعت احکام دین کی تبلیغ اور اصلاح اخلاق کی سعی اورکوشش میں لگارہے، اس مذکورہ خاص شکل کے علاوہ تبلیغ کی یہ خاص صورت نہ فرض عین ہے، اور نہ ہی فرض کفایہ، البتہ قواعد ِشرعیہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ایک مستحب اور مستحسن عمل ہے، جو شخص فکرِ معاش سے فارغ ہوکر اورحقوقِ اہل وعیال کا انتظام کرکے اس پر عمل کرنا چاہے وہ ایک مستحب اورمستحسن عمل کرتا ہے، جو نہیں کرتا اس پر شرعاً کوئی مؤاخذہ نہیں ہے، بشرطیکہ دوسرے طریقہ سے وہ اس فرض کی ادائیگی میں ساعی اورکوشاں رہتا ہے۔ (امداد المسائل : ١٠٥)

درج بالا تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ فی نفسہ دعوت وتبلیغ فرض کفایہ ہے، فرض عین نہیں۔ یعنی اگر کچھ لوگ بھی یہ کام کرلیں تو سب کی طرف سے فریضہ ادا ہوجائے گا، ہر ایک پر دعوت و تبلیغ فرض نہیں۔ لہٰذا مطلق دعوت و تبلیغ کو فرض عین بلکہ اس سے بڑھ کر سمجھنا اور کہنا شریعت کے ایک حکم میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا ہے جو ناجائز اور حرام عمل ہے۔ پھر اگر بات مروجہ تبلیغی جماعت کی، کی جائے تو یہ صرف ایک جائز اور مستحسن عمل ہے۔ اور یہ اختلافی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اتفاقی مسئلہ ہے۔ پس اگر کوئی مروجہ تبلیغی جماعت کو ہی فرض نماز سے زیادہ اہم سمجھتا ہو اور یہ کہتا ہو کہ اس کا چھوڑنا فرض نماز چھوڑنے سے بڑا گناہ ہے تو ایسا شخص دین میں تحریف کررہا ہے، جو خود گمراہ ہے اور گمراہ کرنے والا ہے، لہٰذا ایسے شخص کو توبہ و استغفار کرکے اپنی اس گمراہ کن بات سے رجوع کرنا چاہیے، اور اگر خدانخواستہ وہ اپنی بات سے رجوع نہ کرے تو آئندہ اسے تقریر نہ کرنے دی جائے۔

واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج إلیہ، وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیر۔ (درمختار مع الشامي ۱؍۴۲ کراچی)

قال العلامۃ الآلوسي ہٰذا الآیۃ : {وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} [اٰل عمران: ۱۰۴]: ’’إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات‘‘۔ (روح المعاني ۴؍۲۱ بیروت)

''قولہ تعالی ولتکن منکم امة …قدمضی القول فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر فی ہذہ السورة ''ومن''فی قولہ منکم للتبعیض ومعناہ ان الامرین یجب ان یکونوا علماء ولیس کل الناس علماء وقیل لبیان الجنس والمعنی لتکونوا کلکم کذلک ،قلت القول الاول اصح،فانہ یدل علی ان الامر بالمعروف والنہی عن المنکر فرض علی الکفایة۔ (الجامع لاحکام القرآن : ٤/١٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رجب المرجب 1444

2 تبصرے:

  1. Elaq moutebar ulma ki oon k bayanat ko tayid hasi hai oon ulma k pas aise janisar log hai jo oon mukhaleefat karne walo ko qatal kar sakte aisi Surat me aap ki bat kon sunega

    جواب دیںحذف کریں
  2. انصاری محمود7 فروری، 2023 کو 6:56 PM

    ماشاء اللہ
    مفتی صاحب آپ نے تشفّی بخش جواب عنایت فرمایا.
    جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں