جمعہ، 11 فروری، 2022

متعدد مساجد سے اذان کی آواز آئے تو کس کا جواب دیا جائے؟

سوال :

مفتی صاحب جس طرح سے گھر پر اطراف کی کئی مساجد سے اذان کی آواز آتی ہے تو سبھی مساجد کی اذان کا جواب دینا ضروری ہے کیا؟ اور نہیں تو پھر کس مسجد کی اذان کا جواب دینا چاہیئے؟ اگر کسی ایک مسجد کی اذان کا جواب دے کر واپس اپنے کاموں میں جیسے کسی درسی کتاب پڑھنے میں یا کسی بھی قسم کی کتاب پڑھنے میں یہ کچھ بھی کام کرنے میں مصروف ہوگئے تو چلے گا؟ یا سبھی مساجد کی اذان کا احترام کرنا ہوگا؟
(المستفتی : حافظ زید، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ اذان کا قولی جواب دینا ضروری یعنی فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ یعنی اگر زبان سے جواب دے دیا جائے تو یہ بڑے ثواب اور فضیلت کی بات ہے اور اگر نہیں دیا گیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ اذان کا عملی جواب دینا یعنی باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں حاضر ہونا واجب ہے۔

اس وضاحت کے بعد آپ اپنے سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں کہ اگر بیک وقت یا یکے بعد دیگرے کئی مساجد کی اذان کی آواز آئے تو قریبی مسجد جس میں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو اس کی اذان کا جواب دے دینا کافی ہوگا۔ اور اگر ممکن ہوتو ایک سے زائد مسجدوں کی اذان کا جواب دے دینا بھی ثواب کا ہی کام ہے۔ البتہ ایک اذان کا جواب دینے کے بعد اپنے کام میں مشغول ہوجانے یا کام کرتے ہوئے اذان کا جواب دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

وَمِنْ سَمِعَ الْأَذَانَ فَعَلَيْهِ أَنْ يُجِيبَ وَإِنْ كَانَ جُنُبًا؛ لِأَنَّ إجَابَةَ الْمُؤَذِّنِ لَيْسَتْ بِأَذَانٍ وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خان إجَابَةُ الْمُؤَذِّنِ فَضِيلَةٌ وَإِنْ تَرَكَهَا لَا يَأْثَمُ، وَأَمَّا قَوْلُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «مِنْ لَمْ يُجِبْ الْأَذَانَ فَلَا صَلَاةَ لَهُ» فَمَعْنَاهُ الْإِجَابَةُ بِالْقَدَمِ لَا بِاللِّسَانِ فَقَطْ۔ (البحر الرائق : ١/٢٧٢)

(قَوْلُهُ: وَلَوْ تَكَرَّرَ) أَيْ بِأَنْ أَذَّنَ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ، أَمَّا لَوْ سَمِعَهُمْ فِي آنٍ وَاحِدٍ مِنْ جِهَاتٍ فَسَيَأْتِي.
(قَوْلُهُ : أَجَابَ الْأَوَّلَ) سَوَاءٌ كَانَ مُؤَذِّنَ مَسْجِدِهِ أَوْ غَيْرَهُ بَحْرٌ عَنْ الْفَتْحِ بَحْثًا. وَيُفِيدُهُ مَا فِي الْبَحْرِ أَيْضًا عَنْ التَّفَارِيقِ: إذَا كَانَ فِي الْمَسْجِدِأَكْثَرُ مِنْ مُؤَذِّنٍ أَذَّنُوا وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ، فَالْحُرْمَةُ لِلْأَوَّلِ اهـ لَكِنَّهُ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مَبْنِيًّا عَلَى أَنَّ الْإِجَابَةَ بِالْقَدَمِ، أَوْ عَلَى أَنَّ تَكْرَارَهُ فِي مَسْجِدٍ وَاحِدٍ يُوجِبُ أَنْ يَكُونَ الثَّانِي غَيْرَ مَسْنُونٍ، بِخِلَافِ مَا إذَا كَانَ مِنْ مَحَلَّاتٍ مُخْتَلِفَةٍ تَأَمَّلْ. وَيَظْهَرُ لِي إجَابَةُ الْكُلِّ بِالْقَوْلِ لِتَعَدُّدِ السَّبَبِ وَهُوَ السَّمَاعُ كَمَا اعْتَمَدَهُ بَعْضُ الشَّافِعِيَّةِ۔ (شامی : ١/٣٩٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 رجب المرجب 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں