جمعرات، 10 فروری، 2022

کیا عورتوں کے لیے جوتی پہننا جائز نہیں؟

سوال :

مفتی صاحب کیا عورتوں کو جوتی پہنا منع ہے؟ جیسا کہ ایک کتاب میں درج ذیل حدیث کے حوالے سے منع لکھا گیا ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ ایک عورت جوتے پہنتی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے۔ (ابوداؤد) اور لکھا گیا ہے کہ عورت کے لیے صرف چپل پہننا جائز ہے، برائے کرم اس کی وضاحت فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کے لیے مطلقاً جوتیاں پہننا منع نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ایسے جوتے پہننا جائز نہیں ہے جو مَردوں کے لیے خاص ہوں اور مردوں کے لیے بنائے گئے ہوں۔ اور سوال نامہ میں ابوداؤد شریف کی جو روایت ذکر کی گئی ہے اس کی تشریح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ علیہ نے مرقاۃ میں لکھا ہے کہ یہاں جوتوں سے مراد مردانہ جوتے ہیں۔ یعنی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کے لیے مردوں کی، اور مردوں کے لیے عورتوں کی، لباس، وضع قطع، بول چال اور رہن سہن میں مشابہت اختیار کرنا ملعون عمل ہے۔ لہٰذا جو جوتیاں عورتوں کے لیے خاص ہوتی ہیں اور عورتوں کے لیے بنائی جاتی ہیں ان کا پہننا عورتوں کے لیے بلاکراہت جائز ہے۔ سوال نامہ میں جس کتاب کا حوالہ دیا ہوا اس کے مصنف سے تسامح ہوا ہے ان کی بات درست نہیں ہے۔

عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ :  قِيلَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : إِنَّ امْرَأَةً تَلْبَسُ النَّعْلَ. فَقَالَتْ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَةَ مِنَ النِّسَاءِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٠٩٩)

(وعَنِ ابْنِ أبِي مُلَيْكَةَ) : بِالتَّصْغِيرِ تابِعِيٌّ مَشْهُورٌ (قالَ :  قِيلَ لِعائِشَةَ : أنَّ امْرَأةً تَلْبَسُ النَّعْلَ)، أيِ الَّتِي يُخْتَصُّ بِالرِّجالِ فَما حُكْمُها؟ (قالَتْ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الرَّجُلَةَ) : بِضَمِّ الجِيمِ (مِنَ النِّساءِ) : بَيانٌ لِلرَّجُلَةِ لِأنَّ التّاءَ فِيها الإرادَةُ الوَصْفِيَّةُ أيِ المُتَشَبِّهَةُ فِي الكَلامِ واللِّباسِ بِالرِّجالِ، ويُقالُ: كانَتْ عائِشَةُ رَجُلَةَ الرَّأْيِ أيْ رَأْيُها رَأْيُ الرِّجالِ، فالتَّشَبُّهُ بِالرَّأْيِ والعِلْمِ غَيْرُ مَذْمُومٍ. (رَواهُ أبُو داوُدَ)، أيْ بِإسْنادٍ حَسَنٍ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٧/٢٨٢٣)

مرد را تشبہ بزنان و زن را تشبہ بمرداں ومسلم را تشبہ بکفار و فساق حرام است۔ (مالابدمنہ :۱۶۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 رجب المرجب 1443

1 تبصرہ: