ہفتہ، 26 فروری، 2022

اگر فلاں سے نکاح کیا تو تیری والدہ کو طلاق دے دوں گا کہنے سے طلاق کا حکم

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب ! زید کی شادی جس سے طے ہوئی ہے وہ زید کے والد کو پسند نہیں ہے انہوں نے زید کی والدہ کو کہا ہے اگر زید نے اس لڑکی سے شادی کی تو میں تمہیں (زید کی والدہ) کو طلاق دے دوں گا۔ اگر زید اس لڑکی سے نکاح کر لیتا ہے تو اس کے والدین کی طلاق ہو جائے گی؟
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ اگر تو نے فلاں کام کیا تو تجھے طلاق، یا کسی اور کو کہے کہ تو نے فلاں کام کیا تو میری بیوی کو طلاق، شریعت کی اصطلاح میں اسے تعلیقِ طلاق کہتے ہیں، لہٰذا جب وہ شرط پائی تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن صورتِ مسئولہ میں زید کے والد نے یہ نہیں کہا کہ زید نے فلاں لڑکی سے نکاح کیا تو اس کی والدہ کو طلاق، بلکہ یہ کہا ہے کہ اسے طلاق دے دوں گا، تو یہ تعلیقِ طلاق نہیں ہوئی۔ لہٰذا اگر زید اس لڑکی سے نکاح کرلیتا ہے تب بھی اس کی والدہ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، دونوں کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔ البتہ بیٹے کے معاملے میں بیوی کو طلاق کی دھمکی دینا شرعاً درست نہیں ہے۔ لہٰذا زید کو اس عمل سے باز رہنا چاہیے۔

وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقا لکن إن وجد فی الملک طلقت۔ (الدر المختار : ۳/۳۵۵)

وإن وجد الشرط فی الملک طلقت۔ (کنز الدقائق : ۱۲۷)

مستفاد : ہو رفع قید النکاح في الحال بالبائن أو الماٰل بالرجعي بلفظ مخصوص ہو ما اشتمل علی الطلاق۔ (الدر المختار علی ہامش الرد المحتار : ۴؍۴۲۴)

بِخِلَافِ قَوْلِهِ كَنَمِّ لِأَنَّهُ اسْتِقْبَالٌ فَلَمْ يَكُنْ تَحْقِيقًا بِالتَّشْكِيكِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٨٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رجب المرجب 1443

1 تبصرہ: