جمعرات، 17 فروری، 2022

کبوتر بازی اور کبوتر پالنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! کیا کسی حدیث میں کبوتر پالنے سے منع کیا گیا ہے؟ کیا کبوتر پالنا شیطانی مشغلہ ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : جمیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا جو کبوتروں کے پیچھے پڑا ہوا تھا یعنی ان کے ساتھ لہو و لعب کرنے اور ان کو اڑانے میں مشغول تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے اور شیطان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔

اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ محض کبوتر بازی کے مشغلہ کی غرض سے کبوتر پالنا، فرائض و واجبات کو ترک کرکے کبوتر کے ساتھ شوقیہ مصروف رہنا، گھر کی چھت پر چڑھ کر کبوتر اڑانا  جس سے دوسروں کے گھروں میں نظر پڑتی ہو اور بے پردگی ہوتی ہو اور اپنے کبوتر کے ذریعے دوسروں کے کبوتروں پر قبضہ کرلینا یہ سب شیطانی مشغلہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

البتہ کسی جائز غرض مثلاً تجارت، کھانے، انسیت حاصل کرنے یا نامہ بری کے لیے کبوتر پالنا بلاکراہت جائز ہے، بشرطیکہ ان کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا معقول نظم ہو۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَتْبَعُ حَمَامَةً، فَقَالَ : شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانَةً۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٩٤٠)

فَأَمَّا سَائِرُ مَا يَتَلَهَّى بِهِ الْبَطَّالُونَ مِنْ أَنْوَاعِ اللَّهْوِ كَالنَّرْدِ وَالشِّطْرَنْجِ وَالْمُزَاجَلَةِ بِالْحِمَامِ وَسَائِرِ ضُرُوبِ اللَّعِبِ مِمَّا لاَ يُسْتَعَانُ بِهِ فِي حَقٍّ، وَلاَ يُسْتَجَمُّ بِهِ لِدَرْكِ وَاجِبٍ فَمَحْظُورٌ كُلُّهُ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۳۵/٦٦٧)

قَالَ فِي الْمُجْتَبَى رَامِزًا: لَا بَأْسَ بِحَبْسِ الطُّيُورِ وَالدَّجَاجِ فِي بَيْتِهِ، وَلَكِنْ يَعْلِفُهَا۔ (شامي : ٦/٤٠١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رجب المرجب 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں