مدارس کے معلمین کی تنخواہیں


          آؤ کہ لہو رو لیں

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام! جیسا کہ ہم سب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہمارے شہر میں منظم، معیاری مکاتب اور مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔ لیکن یہ شہر مدارس اور مکاتب کا شہر ایسے ہی نہیں بن گیا، بلکہ اس کی پیچھے قربانیاں ہیں جو شروع سے لے آج تک دی جارہی ہیں، ان قربانیوں کو آج آپ حضرات کے سامنے دل کھول کر بیان کرنا ہے تاکہ سب کو حالات کا علم اور کچھ تو احساس ہو۔

معزز قارئین ! سب سے اہم اور بڑی قربانی دینے والے یہاں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ ہیں، جن کی تنخواہیں تشویشناک حد تک کم ہیں۔ لہٰذا دل تھام کر جان لیں کہ پانچ گھنٹے پڑھانے والے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار، اور سات، آٹھ گھنٹے پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں اب بھی سات آٹھ ہزار تک ہیں۔ اور اگر خواتین معلمات کی بات کی جائے تو ان کا زبردست استحصال کیا جارہا ہے اور انہیں مرودں کی بہ نسبت نصف یا اس سے کچھ زیادہ تنخواہ دی جارہی ہے۔ اور پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ میں سال میں ایک مرتبہ تین سو یا پانچ سو کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اور کسی سال تو اضافہ بھی نہیں ہوتا۔

ماہانہ پانچ چھ ہزار تنخواہ میں یہ لوگ کس طرح سے اپنا گھر خرچ چلا رہے ہیں؟ کس طرح بیماریوں کے علاج کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کررہے ہیں، کس طرح ان کے تہوار گزرتے ہیں؟ کس طرح اپنے بچوں کے تعلیمی خرچ پورے کررہے ہیں؟ کس طرح ان کے یہاں شادی بیاہ کے مراحل طے ہوتے ہیں؟ کیا اتنی تنخواہ میں یہ لوگ مضافات میں بھی اپنا چھوٹا سا ذاتی مکان بناسکتے ہیں؟ ان سب کا جواب آپ خود سوچ کر اپنے آپ کو مطمئن کریں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ ان معلمین میں ایک طبقہ تو ان نئے فارغین کا ہے جو ابھی ابھی عالمیت یا صرف حفظ قرآن مکمل کرکے مکتب میں خدمت انجام دینا چاہتے ہیں، چونکہ ان میں اکثر کی عمر سترہ سے بائیس سال کے درمیان ہوتی ہے، لہٰذا ان کی شادی کو ابھی دو سے پانچ سال ہوتا ہے۔ جب تک ان پر کوئی خاص مالی ذمہ داری گھر والوں کی طرف سے نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ علماء اور حفاظ کم تنخواہوں میں بھی خدمت انجام دینے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کا نکاح ہوجاتا ہے یا نکاح کا وقت قریب آتا ہے تب ان کے لیے مشکل پیش آتی ہے کہ ماہانہ پانچ ہزار آمدنی سے کس طرح گھر کے اخراجات چلیں گے؟ ماہانہ پانچ ہزار آمدنی والے لڑکے کو کون اپنی لڑکی دے گا؟ یہی وجہ ہے کہ بہت سے جید علماء وحفاظ معاشی تنگی کی وجہ سے دو چار سالوں میں ہی مدرسہ چھوڑ کر پاورلوم چلانے، پاورلوم پر بننے والوں کپڑوں کی گھڑی لگانے، دوکانوں پر ڈیوٹی دینے یا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے لگتے ہیں، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مکاتب اور مدارس باصلاحیت، جید اور تجربہ کار اساتذہ سے محروم ہوجاتے ہیں اور اس کا سیدھا اثر طلباء کی تعلیم پر پڑتا ہے، جس کا احساس مکاتب اور مدارس کے فکرمند ذمہ داران بخوبی کرسکتے ہیں۔

ہمیں حیرت اور دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ان مکاتب کے عموماً ذمہ دار کارخانہ دار، تاجر، ڈاکٹر، ٹیچر اور انجینئر ہوتے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔ جن کا ماہانہ اوپر اوپر کا خرچ یعنی صرف دودھ اور گوشت کا خرچ ہی ان معلمین کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ تو کیا کبھی یہ حضرات اپنے آپ کو ان معلمین کی جگہ رکھ کر نہیں سوچتے کہ ایسی جیب خرچ جیسی تنخواہ میں ہمارے گھر کے سارے اخراجات کیسے پورے ہوتے؟

کیا کوئی ان کا درد محسوس کرنے والا نہیں ہے؟ کیا ہم سب بے حس ہوگئے ہیں؟ کیا علماء وحفاظ کرام جنہوں نے سالوں علم دین حاصل کرنے کے لیے مشقتیں جھیلی ہیں، اور پھر علم دین کی نشر واشاعت اور ہمارے بچوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت کے لیے مسند تدریس سنبھال لی تو اس کا بدلہ ہم نے اسے یہ دیا کہ اسے ایک مزدور سے گئے گزرے حالات سے دوچار کردیا۔ جو حضرات معلم ہونے کے ساتھ امام بھی ہوتے ہیں ان کے معاشی حالات پاورلوم مزدور اور حمال (باربرادر) جیسے یا ان سے کچھ بہتر ہوتے ہیں، لیکن جو صرف معلم ہوتے ہیں ان کے معاشی حالات تو بلاشبہ مزدوروں اور حمالوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں، کیونکہ آج ایک حمال اور پاور لوم مزدور بھی ہفتہ کا کم از کم تین ہزار اور زیادہ سے زیادہ چھ ہزار تک کمالیتا ہے، اور مکاتب کے معلمین کی تنخواہیں ماہانہ اس کے آس پاس ہوتی ہیں، آپ خود موازنہ کرلیں کہ ان حفاظ، علماء اور مفتیان کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟

یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کم تنخواہ کے سلسلے میں عموماً لوگ اکابر کی تنخواہوں کا حوالہ دیتے ہیں، جب کہ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑی معقول ہوا کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں ایک تحریر ملاحظہ فرمائیں :

سوانح قاسمی کے مطابق حضرت نانوتوی آٹھ/دس روپے کی اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے، اس وقت اتنے میں ایک بھینس مل جاتی تھی، جبکہ آج کل کے دور میں ایک متوسط بھینس کی قیمت کم و بیش ایک لاکھ روپے روپے ہے۔

"دجالی فتنہ کے نمایاں خدوخال" (مصنف: حضرت سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تعالی) کے مطابق شیخ الہند مولانا محمود حسن گنگوہی کی تنخواہ پچہتر روپے تھی۔ پچاس میں ان کا گھر چل جاتا تھا، پچیس روپے ہر ماہ دارالعلوم کو واپس کر دیتے تھے (یہ انتہائی درجے کا خلوص تھا) اس کا مطلب ہے کہ انکی تنخواہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھی۔

اشرف السوانح کے مطابق حضرت تھانوی کی تنخواہ کانپور سے علیحدگی کے وقت پچاس روپے تھی۔ اسی کتاب کے مطابق جب حضرت کی ملکیت پانچ سو روپے کی ہوگئی تھی تو والد ماجد کو لکھ گئے تھے کہ اب مجھ پر حج فرض ہوچکا، یعنی دس ماہ کی تنخواہ سے ہی حج فرض ہوجایا کرتے تھے۔

حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی تنخواہ ڈھائی سو روپے تھی۔ اور حج کرنے گئے تو اس کا کل خرچ پندرہ سو روپیہ آیا تھا، یعنی صرف چھ مہینے کی تنخواہ سے ہی حج فرض ہوجاتا تھا۔

کیا یہ تنخواہیں کم ہیں؟ بالکل نہیں۔ لیکن ہمارے یہاں تو مدرسین کی زندگی کی انتہائی درجے کی ضروریات بھی پوری نہیں ہورہی ہیں۔ اور بغور دیکھا جائے تو تنخواہوں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے اصل کمی وہاں ہے، کہ مہنگائی پچاس فیصد بڑھتی ہے تو تنخواہ آٹھ دس فیصد۔

اور بات تنخواہ پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان اساتذہ کا دنیا بھر کے اصول وضوابط پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی اوقات میں آفس میں موبائل جمع کروا کر کلاس میں جانا ہوتا ہے، تاخیر کی صورت میں منٹوں کے حساب سے تنخواہ کٹتی ہے۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ اور عطیات وصولی کے لیے بک تھما دئیے جاتے ہیں، عیدالاضحیٰ کے موقع پر چرم کے بدلے عطیات جمع کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ مدرسہ میں سالانہ جلسہ اور مسابقہ ہے تو اس کے انتظامات اور انعامات کے لیے چندہ کرنا پڑتا ہے، مسجد مدرسہ کی تعمیر کا مرحلہ ہے تو اس کے تعاون کے لیے کوشش کا حکم دے دیا جاتا ہے، سال بھر میں کبھی بھی مدرسہ کا بجٹ ختم ہونے لگے تو جمعہ اور دیگر نمازوں میں مساجد میں چندہ کرکے بجٹ پورا کرنے کا آرڈر دے دیا جاتا ہے۔ طلباء کے ساتھ اساتذہ کو بھی اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ بھی رنگین کے بجائے صرف سفید لباس میں مدرسہ آئیں، جبکہ یہ انتہائی مشکل امر ہے کہ ایک شخص دن میں تین تین مرتبہ اپنا رنگین لباس اتار کر سفید لباس پہن کر مدرسہ آئے۔ پھر سفید لباس کو صاف رکھنے اور دھلنے میں رنگین کپڑوں سے زیادہ اخراجات آتے ہیں، جو بلاشبہ ان تنگدست معلمین کے لیے اضافی بوجھ کا سبب بنے گا۔

اگر اصحاب خیر یا طلباء کے سرپرستوں میں سے کوئی ان پر بہت مہربان ہوتا ہے تو ان کی دعوت کردیتا ہے یا ایک جوڑا کپڑا دے دیتا ہے، جبکہ ان دونوں کی انہیں کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ دعوت اور کپڑا ہدیہ دینے کے بجائے اگر انہیں دو پانچ سو روپے ہدیہ کردئیے جائیں تو یہ ان کے لیے زیادہ کارآمد ہوں گے۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان اساتذہ کو مکتب میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ کاروبار بھی کرنا چاہیے، ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے لیے بھی ایک خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ ان حضرات کا اپنی تنخواہ سے ضروری اخراجات ہی پورے ہوجائیں تو غنیمت ہے، تو کوئی رقم پس انداز کہاں سے ہوسکتی ہے؟ اور اگر کہیں سے رقم کاروبار کے مل بھی جائے تو ہر کوئی بزنس مائنڈ کا نہیں ہوتا، باوجود کوشش کے ہم نے بہت سے اساتذہ کو کاروبار میں ناکام ہوتے دیکھا ہے۔ اور دن بھر مدرسہ میں پانچ سے آٹھ گھنٹے پڑھانے کے بعد کس کا دماغ اور جسم اس قابل رہ جائے گا کہ وہ کوئی کاروبار کرے؟ سیدھی سی بات ہے کہ پانچ سے آٹھ گھنٹے پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ اگر پاور لوم مزدوروں کے جیسی بھی کردی جائے تو ان کے حالات کافی سدھر سکتے ہیں اور ان کو کاروبار وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

لہٰذا ذمہ داران کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی اس بات پر غور کریں کہ خدانخواستہ حاملین قرآن و حدیث کی ایسی درگت کے ہم سب تو ذمہ دار نہیں ہیں؟ کہیں بروز حشر ہم سے پوچھ نہ ہوجائے؟ غیرقومیں اپنے مذہبی پیشواؤں پر اپنی آمدنی کا دس فیصد تک کا حصہ خرچ کرتی ہیں، اگر ہم ایک فیصد بھی ان پر خرچ کردیں تو ہمارے مذہبی پیشواؤں کے حالات میں خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔ بالخصوص ذمہ داران کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ آپ جس مکتب یا مدرسہ کے ذمہ دار ہیں وہاں پڑھنے والے ہر ہر طالب علم کے پڑھنے کا ثواب بلاشبہ آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، لیکن صرف ذمہ دار بن جانے، اساتذہ پر اصول وضوابط لاگو کرنے اور صرف آرڈر دینے سے آپ کو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لیے آپ کو مکتب اور مدرسہ کے ظاہری اور باطنی ہر طرح سے استحکام کی کوشش کرنا پڑے گی۔ لہٰذا آپ خود بھی مالی تعاون کریں، اور دوسروں سے تعاون حاصل کرنے کی جدوجہد کریں تب کہیں آپ حقیقی ذمہ دار کہلائیں گے۔ اسی طرح عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بقدر استطاعت مکاتب کا خود بھی مالی تعاون کریں اور دوسروں کو بھی اس کے لیے تیار کریں تاکہ مکاتب کا مالی نظام مستحکم ہو اور قلتِ تنخواہ کا قہر جھیلنے والے مظلوم اساتذہ کی تنخواہوں کا معیار کچھ تو بلند ہو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو درد دل عطا فرمائے، دوسروں کی تکلیفوں کو سن کر اور دیکھ کر اس کا کسی نہ کسی درجہ میں مداوا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

تبصرے

  1. انصاری محمد مبین فیاض احمد24 مئی، 2023 کو 6:24 PM

    لمحہ فکریہ ہے امت کے لئے۔ الله سمجھ و ہدایت عطا فرمائے میرے لئے بھی دعا کریں الله میرے ذریعے سے دین کی سربلندی کا کام لے آمین یارب العالمين

    جواب دیںحذف کریں
  2. Padhai k saath saath achhe se business bhi kare , inshaallah kamiyabi mile gi or ye kabhi na Hal hone wala mas-ala Hal ho jae ga inshaallah

    جواب دیںحذف کریں
  3. الحمدللہ، مفتی صاحب کی اس بصیرت افروز اور درد مند تحریر نے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس میں جو سچائی، اخلاص، اور زمینی حقائق پر مبنی مشاہدات بیان کیے گئے ہیں، وہ نہ صرف ہمارے دینی تعلیمی اداروں کے نظام پر نظر ثانی کا تقاضا کرتے ہیں، بلکہ ہر فردِ ملت اسلامیہ کو اپنے کردار پر غور کرنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔

    ہم مفتی صاحب کے اس درد دل، خلوصِ نیت اور حق گوئی پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ان مظلوم اساتذہ اور دینی خدمت گاروں کی نمائندگی کا فریضہ نہایت خوبصورتی سے ادا کیا، جن کی آواز اکثر دب کر رہ جاتی ہے۔

    اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی اس کوشش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اور ان کے علم، قلم، اور عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. اس مضمون کو جتنا سراہا جائے کم ہے ۔

    علماء و حفاظ کرام کی خدمات کا صلہ اللہ پاک دنیا و آخرت دونوں جہاں میں عطاء فرمائے آمین

    اللہ تعالیٰ ہمیں جملہ باتوں پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  5. بیشک اللہ پاک علماء کرام کو انکی قربانیوں کا بہترین بدل عطا فرمائیں گے، اس دنیا میں اور آخرت میں بھی۔

    لیکن کسی کا استحصال آج اگر ہو رہا ہے تو صرف یہی علماء و حفاظ کی جماعت ہے۔

    سب سے پہلے تو مسجد و مدارس کے ٹرسٹیان کو چاہیئے کے اپنا محاسبہ کریں اور اگر مسجد و مدارس کو بہتر طریقے سے نہیں چلا سکتے یا امام و موذن و معلمین کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تو انہیں اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے اور یہ اتنی آسانی سے نہیں ہوگا۔ اسکے لئے مسجد و مدارس کے محلّے کے لوگوں کو ایک ساتھ ہو کر اس سلسلے میں ٹرسٹیان سے بات کرنا چاہیۓ۔

    دوسرے یہ کہ ہر گھر سے مسجد و مدارس کے چندے میں ہر سال بڑھوتری ہو تاکہ نظام چلانے میں مالی دشواری پیش نہ آئے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی کئی سال ہو جاتے ہیں لوگ مسجد و مدارس کی ہفتہ، مہینہ واری پوتی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے۔

    اللہ پاک ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور علماء کرام سے سچی محبت عطاء فرمائے آمین۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. یہ ہم سب کیلئے لمحئہ فکر ہے اللہ پاک مفتی صاحب کی کوششوں کو قبول فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  7. جزاك الله خير الجزاء

    حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم....!!!

    ﷲتعالیٰ آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے آمین

    آپ نے ہم گونگوں کی ترجمانی کی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  8. بسم الله الرحمن الرحيم.
    ایاک نعبد و ایاک نستعین ۔

    مفتی صاحب ۔ اللہ پاک آپکی اس کوشش کو قبول کرے۔ میں اب سیدھے مدعے پر آتا ہوں۔
    میں اور میرے احباب الحمدللہ ایک معتبر پیشے سے وابستہ ہونے والے ہیں۔ ہمارا یہ عزم ہے کہ ہم جو بھی کمائی کریں گے انشاء اللہ اسکا ایک فکس اماؤنٹ جو ہے ہر مہینے معلم، امام و مفتی اور مؤذن صاحبان کو بطور ہدیہ یا وظیفہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ہماری کوشش کو قبول کرے۔
    اور عرض بھی یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اب جو ٹرسٹی ہیں نا اب انہیں آرام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت کام کر لئے اب انکا دماغ نا چل نہیں رہا۔ تو اب جو سنجیدہ افراد ہیں انہیں یہ زمہ داری سنبھالنی چاہیے۔
    چند سالوں پہلے کی بات ہے۔ ایک معروف مسجد کے ٹرسٹی کے گھر سے پیسہ چوری ہوگیا۔ ہوا بھی تو صرف مسجد کا؟؟
    بولنے کو بہت کچھ ہے مگر بول کر فائدہ نہیں۔ اب صرف کوشش کرنی ہے۔
    میرے پاس کچھ تجویزیں ہیں۔
    1 جو بھی محلے کا سیٹھ آدمی ہے اسے چاہئے کہ اپنی کمائی کا کچھ حصہ مسجد کے خدمت گزاروں کو بطور خود آکے باالمصافحہ ادا کریں۔ خوشی سے یا پھر زمہ داری سے۔
    2 مسجد سے منسلک شادی ہال ، ہاسٹل وغیرہ کی تعمیر کریں اور تعمیر شدہ ہیں تو انکی بہترین مرمت کریں ۔اور اسکی جو کمائی ہے اسکو ان دین کے محافظوں کے حوالے کریں۔
    3 گھروں پر جس طرح ہفتہ واری یا مہینے واری بجٹ نکلتا ہے۔ حساب ہوتا ہے اس میں گھروں سے یہ بھی چیز شامل ہونی چاہیے کہ فلاں فلاں مسجد میں فلاں فلاں اماؤنٹ ہمیں دینا چاہئے۔
    وغیرہ۔

    اور یہ جو مسجد کے ٹھیکیدار ہیں انہیں اب رخصت کرنے کی ضرورت ہے۔ مطلب حد ہے۔ ایک تو امام و مؤذن صاحبان کو اپنا ذاتی نوکر سمجھ کر رکھا ہے۔ بروقت حاضر ہونا۔ یہ کرنا وہ کرنا۔۔ ساتھ ساتھ میں جو انکے ذاتی کام ہیں انہیں بھی انہیں افراد سے انجام دلوانا ۔ اندھیر ہے۔
    اور مسجد کے ٹرسٹی کیا کہیں سے لکھوا کر پیدا ہوئے ہیں کیا کہ یہ عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔
    جن امام و مؤذن کا ذاتی گھر نہیں ہے یا ہے بھی تو ۔ یہ ٹرسٹیان کی زمہ داری ہے اور نہیں ٹرسٹیان تو ہم سب کی خود کی زمہ داری ہے کہ ان دین کے خدام کی ہم خود کفالت کی زمہ داری اٹھائیں۔

    جس طرح سے حکومتی اداروں سے منسلک افراد کیلئے ہوتی ہے کہ سفر مفت، رہنا کھانا مفت ، اسی طرح ہم سب بھی اپنی ذات سے کوشش کریں کہ
    ہر میڈیکل و دواخانے والے حضرات انکی دوائیاں و اخراجات کو مکمل طور سے مفت کریں یا پھر انہیں انتہائی کم قیمت میں انکا علاج کا انتظام کریں۔
    اپنے مسلم دکانوں پر جو بھی بڑی چھوٹی دکانیں ہیں ان پر سودا سلف کیلئے بھی بھاری چھوٹ ملے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو البتہ اتنا ضرور سے کریں کہ جو بھی سیٹھ ہے یا اچھا کمانے والا ہے وہ اپنی طرف سے کچھ روپئے وہاں دے دے اور جب بھی کوئی دین کا خادم جائے تو انسے پیسے نہ کیا جائے بلکہ وہ سیٹھ آدمی کے پیسے کو استعمال کیا جائے۔
    جمیعت العلماء ہند سے علما کا ، امام و مفتی یا پھر مؤذن صاحبان کا ایک کارڈ ہو جو کہ ہر دکان پر چلے یا پھر اس کی وجہ سے ڈسکاؤنٹ بھی ہو ایسے بھی کر سکتے ہیں ۔
    اخیر میں ہم اپنی ذات سے کوشش کریں۔ کہ ہم زیادہ سے زیادہ علماء ، ائمہ مؤذن صاحبان اور ایسے ہی دین کے خدام ، مدارس کے طلبہ کو یا پھر مسجد مدرسے کو بھرپور طریقے سے مستحکم و مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔
    دل آزاری کیلئے معذرت ۔
    اللہ پاک ہمیں ان خدام کی قدر کرنے والا بنائے۔ اور انکا سایہ و رہنمائی ہمارے اوپر قائم فرمائے۔ آمین۔

    ابن رفیق عمر

    جواب دیںحذف کریں
  9. جی محترم ۔ آپ کی رائے قابلِ قبول ہے کہ علما کی عزت نفس بیچ میں آتی ہے یہ کارڈ بنوانے میں ۔البتہ اس لئے کارڈ کا تذکرہ تھا کہ ایک Identity ایک شناخت رہے۔ تاکہ اس وجہ سے ہمارے پاس ایک مواد رہے ایک DATA رہے کہ کتنے ائمہ، کتنے مؤذن ، کتنے مولوی صاحب و حضرات دین کی خدمت میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
    ایک System کے مترادف ہمارے پاس اعدادوشمار تو ہونے چاہئے نا۔ اس وجہ سے اس چیز کا تذکرہ تھا۔
    اور جب بات نکلی ہی ہے تو اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ ہر وقت ہمیں چندے کرنے پڑتے ہیں۔ جیسے کہ مضمون میں صاحب نے اشارہ دیا ہی ہے کہ چندوں کیلئے بھی انہیں سے رابطہ کرنے پڑتا ہے۔
    میرا مشورہ و تجویز یہ ہے کہ مساجد و مدارس کو خودمختار اور مستحکم بنانے میں ہم اپنا کردار ادا کریں۔ مندرجہ بالا تحریر میں جیسے ذکر ہے کہ شادی ہال، تو اسی طرح لائبریری ، شاپنگ ہال، مکانات، یا پھر ہاسٹل کا انتظام کریں ۔ اور اس کا جو کرایہ ہے اسے مسجد کے فلاحی کام میں استعمال کریں۔
    مدارس کی مضبوطی میں صرف ہو۔ اور محلے کے سنجیدہ افراد اس پر زیادہ غور کریں اور ہم اپنی ذات سے بھی شروع کریں۔ جب گھومنے پھرنے، شادی بیاہ میں بے دریغ پیسے خرچ کر سکتے ہیں تو ان خدام کی اجرت و انکے کام پر کیوں نہیں۔

    ایک المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بڑی سے بڑی ڈگری و تعلیم کے پیچھے تو پیسے لگاتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں کہتے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر امام یا مؤذن بنے گا ۔ کیوں ؟. ہم سب جانتے ہیں کہ اتنی اجرت ملتی ہی نہیں۔
    تو اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم اتنا اس خدمت کی اجرت رکھے کہ ہم از کم ایک غریب باپ بھلے سے بچے کو اسکول نہ بھیجے مگر مدرسے و علم دین سیکھنے ضرور بھیجے۔ تاکہ اس باپ کو پتہ رہے کہ میرے بیٹے کی تنخواہ کم نہیں ہے۔
    یا پھر اتنی کہ جب کوئی حافظ صاحب مدرسے سے فارغ طلبہ کے نکاح کا وقت ہو تو انہیں مساجد و مدارس میں اچھی جگہ تدریس و امامت کا اتنی تو اجرت ملے کہ وہ اپنا گھر آرام سے چلا سکیں اور کوئی باپ کو یہ سوچنا نا پڑے کہ امام و مؤذن ہے کتنا ہی کما لیتا ہوگا۔۔۔
    جیسے مرد حضرات کا ہے اسی طرح معلمات مستورات کا بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔ جب زمہ داری ہوگی ، ارادے نیک رہیں گے انشاء اللہ ۔ اللہ پاک ہماری مدد کریں گے۔ ہماری کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. اور جو مساجد کے بڑے بڑے اخراجات ہیں انہیں بھی ہم کم کر سکتے ہیں ۔ جیسے مسجد میں سب کو ہی آسودگی چاہئے تو اسکے لئے اے ۔سی ۔ اور کولر نصب کئے گئے تو اگر کوئی سوجھ بوجھ والے افراد ہوں جنہیں حکومت ہند کی پالیسی جو سولار وغیرہ لگانے کی ہے۔ اگر جیسے مستقبل میں یہ خدشہ ہے کہ مساجد پر آنچ آئے گی تو بہتر ہے مساجد کے آس پاس کے مکانات ہر سولار لگا لیں۔ اور اسکی بجلی کا کنکشن مسجد میں دے دیں۔ یہ بھی کر سکتے ہیں ۔

    پانی کا مسئلہ ہے تو بہتر تو یہی ہے کہ گھروں سے وضو کر کے آئیں۔ تاکہ مساجد کے پانی کا استعمال کم ہو۔ اسکی صاف صفائی بھی ہوتی رہے کہ جمع شدہ پانی خراب نہ ہو۔ پانی کا مسئلہ ہے تو ہم Storage بڑے بنوالیں کہ کبھی پانی خدا نخواستہ ختم ہو جائے تو اسکے لئے اپنے پاس سہولت رہے تو اس چیز کو اس طرح سے بھی کر سکتے ہیں کہ جب نل آئے تو Extra پانی ڈرم میں ٹانکہ میں بھر لیں ۔ اور اس پانی کو مساجد میں استعمال کیلئے دے دیں اس سے پانی پٹی بھی کم آئے گی اور مسجد کی جو رقم ہے اس پر تھوڑا کم لوڈ آئے گا ۔ تو ایسے بھی کر سکتے ہیں اور دیگر اخراجات جیسے چٹائی وغیرہ تو جب زکوٰۃ یا صدقہ یا عطیہ جو بھی نیت سے ہم مسجد میں دیتے ہیں (مجھے علم نہیں کہ کس نوعیت سے ہم رقم دیتے ہیں ) تو اس کیلئے ہم خود سے وہ چیزیں خرید کر مسجد میں وقف کر دیں ۔ یہ اس طریقے سے بھی ہو سکتا ہے کہ مساجد کے اخراجات میں کمی آئے۔
    بیت المال کا انتظام ہو۔ یا پھر ایسے ہی کوئی چیز جیسے ڈرم وغیرہ جس سے کرایہ آمدنی ہو تو اس چیز سے بھی مسجد کے اماؤنٹ میں بڑھوتری ہوگی۔

    یہ کچھ تجویزیں تھی۔ اس پر عمل کر کے ہم مساجد و مدارس کو مستحکم و خود مختار بنا سکتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم اپنی ذات سے شروع کریں۔ جب سر جوڑ کر بیٹھیں گے تو مسئلے کا حل نکلے گا۔
    اور جب ان طریقوں سے مسجد کا جو بجٹ ہے اسمیں بڑھوتری ہوگی تو انشاء اللہ اس سے ہم ائمہ و مؤذن صاحبان کی تنخواہوں میں خودبخود اضافی کرنے سے ہچکچائیں گے نہیں۔

    جس طرح مساجد میں تبلیغی مشورے ہوتے ہیں اسی طرح مہینے میں ایک دن یا ہفتہ واری جمعہ کے دن عام مشورتی مجلس کا انعقاد ہو جس میں ان مسائل پر بات ہو اور انکو حل کرنے کی ترکیب و کوشش۔ اس طرح ہر شخص اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے اس میں شرکت کرے اور ان مسائل پر غور کرے۔
    اللہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  11. اور دور ِ جدید ہے آج ہر ایک کے پاس موبائل فون ہے تو وہاٹس ایپ پر ایک Community بھی بنا سکتے ہیں جس پر ہر مساجد کے جو مسائل ہیں ۔ جو ائمہ کے مسائل ہیں ان پر ہم غور کریں۔ جن چیزوں کی ضرورت ہے ان چیزوں کی فراہمی کی کوشش کریں۔
    ابھی گزشتہ ایک معروف مدرسے میں پٹرے کی ضرورت تھی تو اس پٹرے کی قیمت اور اسکی مقدار لکھ کر ساتھ میں QR Code ڈال دیا گیا تھا۔
    جس سے اگر کوئی شخص چاہے تو بیٹھے بیٹھے اسکو کم از کم ایک پٹرے کی قیمت ہی بھیج دیتا۔
    تو اس طرح سے ہم بھی تعمیراتی کام سے لیکر ہر چھوٹی بڑی چیزوں پر اس کا تقاضہ کر سکتے ہیں اور مسائل حل کرواسکتے ہیں۔ 😌

    کم ازکم 60,000 ماہانہ تنخواہ یا اس سے زیادہ تنخواہ تو ہونی چاہئے ۔ مہنگائی کا دور سے صاحب ۔ تو تنخواہ تو بڑھانی ہوگی۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟

مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی کے بیان "نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ سال تھی" کا جائزہ