منگل، 26 جولائی، 2022

پیدل حج کے لیے جانے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیرالا سے ایک نوجوان پیدل سفر حج پر نکلا ہوا ہے۔ کچھ لوگ ان صاحب کی بہت تعریف کر رہے ہیں اور کچھ لوگ اسے ریاکار کہہ رہے ہیں۔ براہ کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کی روشنی میں آج کے حالات میں جبکہ سفر حج کے دوسرے آسان ذرائع موجود ہیں تو پیدل جانا کیسا ہے؟ ایک میسیج ان کے خلاف گردش کر رہا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ان کا یہ سفر حج شریعت کے مزاج کے خلاف ہے وہ جان بوجھ کر اپنی  جان ہلاکت میں ڈال رہے ہیں دکھاوا کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر سلطان، کراڈ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کے بیان کے مطابق حج، صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ اور حدیث شریف میں استطاعت کی وضاحت یہ کی گئی ہے کہ زاد و راحلہ یعنی سفر میں کھانے پینے کے سامان اور وہاں پہنچنے کے لئے سواری کا انتظام ہو۔ اور اگر سواری کا انتظام نہ ہوتو راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق حج فرض ہی نہیں ہوتا۔ البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ : وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ۔ (سورہ حج، آیت : ٢٧) میں ہے کہ حج کے لیے لوگ پیدل بھی آئیں گے اور سواری پر بھی آئیں گے۔ جس کی وجہ سے پیدل حج کا جائز ہونا بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن پیدل حج کی فضیلت پر جو حدیث شریف بیان کی جاتی ہے کہ "ہر قدم پر اتنی اتنی نیکی ملی گے جو حرم کی نیکیوں کے برابر ہوگی" تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ یا اطراف مکہ کے رہنے والے ہیں یا اتنی دوری پر ہیں کہ بلا مشقت وہ پیدل چل کر آسکتے ہیں۔ دور دراز سے آنے والے جنہیں آفاقی کہا جاتا ہے ان کے لیے سواری پر آنا ہی افضل ہے۔

اسی طرح پیدل حج کی ممانعت پر جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیدل حج پر جانا مطلقاً ناجائز ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان روایات میں جسے منع کیا ہے وہ ایک عورت ہے اور ایک بوڑھے اور کمزور شخص ہیں جو بلاشبہ پیدل حج کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا ان روایات کی وجہ سے پیدل حج کو سرے سے ناجائز نہ سمجھا جائے بلکہ چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے۔

معلوم ہوا کہ مکہ سے دور دراز رہنے والے مثلاً ہندوستان وغیرہ کے باشندوں کے لیے پیدل حج پر جانا صرف جائز ہے، فرض یا واجب نہیں۔ بلکہ سنت بھی نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  نہ پیدل حج کیا اور  نہ ہی پیدل حج کرنے کی ترغیب دی ہے۔

پیدل حج کے سوال پر مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑا تشفی بخش جواب لکھا ہے جو ذیل میں نقل کیا جارہا ہے۔
حج کی فرضیت کے لئے یہ شرط ہے کہ مکہ معظمہ تک سواری پر پہنچنے کے لئے روپیہ ہو اور سفر کے ضروری مصارف اور واپسی تک اہل و عیال کے نفقہ کی رقم بھی رکھتا ہو۔ جس کے پاس اتنی رقم نہ ہو کہ وہ سواری پر جاسکے اس پر پیدل جاکر حج کرنا فرض نہیں لیکن اگر کوئی شخص پیدل حج کرے تو ناجائز بھی نہیں، مگر اس کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہو تاکہ راستہ کی تکلیف سے دل تنگی اور دشواری پیش نہ آئے اور یہ پیدل جانا محض ثواب اور رضائے الہی کے لئے ہو شہرت اور ناموری مقصود نہ ہو۔ اپنے اس فعل کو اخبارات اور اشتہارات کے ذریعہ شہرت دینا ناجائز ہے کہ اس میں سوائے شہرت کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے جن بزرگوں نے ایسے کام کئے ہیں انہوں نے حتی الامکان چھپانے کی سعی کی ہے اور اس کی غرض بھی ریاضت اور قہر نفس ہے نہ کہ اتباع سنت کیونکہ آنحضرت ﷺ نے نہ پیدل حج کیا اور نہ ترغیب دی بلکہ ایک عورت نے منت مانی تھی کہ پیدل حج کروں گی تو آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا مروہا فترکب کہ اس کو کہو کہ سواری پر جائے۔

یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی اسی لئے امور شاقہ فرض نہیں فرمائے لیکن کسی خاص مصلحت دینیہ سے نفس کو مقہور کرنے اور ریاضت کی نیت سے کوئی دشوار بات کوئی شخص اختیار کرلے تو بشرطیکہ وہ شہرت و ناموری و مقبولیت کی نیت سے پاک ہو تو جائز ہے۔ مگر اس کو طریق سنت اور افضل نہ سمجھا جائے کیونکہ افضل وہی مراد ہے جو پورے شوق و رغبت اور نشاط سے ہو خواہ تھوڑا ہو لیصل احدکم نشاطہ کا حکم اسی پر شاہد ہے بزرگوں کے پیادہ سفر حج کو دلیل بنانابھی درست نہیں کہ ان جیسا خلوص صفائے قلب بھی میسر نہیں۔ (کفایت المفتی : ٤/٣٥٠)

خلاصہ یہ ہے کہ جب نیت صاف ہو شہرت نام ونمود اور ریکارڈ بنانا پیشِ نظر نہ ہو، نیز پیدل جانے کے سارے انتظامات کرلیے گئے ہوں۔ اور کسی خاطرخواہ تکلیف کا سامنا کرنے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور شخص سے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ وہ خود کافی مالدار ہے اور انہوں نے اپنے اہل وعیال کے نان ونفقہ کا انتظام بھی کردیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام قانونی کارروائی کرلی ہے اور پیدل یا بائک وغیرہ پر ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنے والوں کی طرح ٹریننگ بھی لے لی ہے۔ نیز موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت کی وجہ سے راستے کا تعین اور قیام وغیرہ کی دشواری پہلے زمانے کی بہ نسبت بہت کم ہوچکی ہے۔ اور وہ دوسروں کے رحم وکرم پر بھی نہیں نکلے ہیں، بلکہ وہ حتی الامکان اپنے ذاتی خرچ سے قیام وطعام کا نظم کرتے ہیں، لہٰذا ان کا پیدل حج کے لیے جانا جائز ہے۔ لیکن چونکہ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، چنانچہ دوسرے لوگ اگر اس کا ارادہ کررہے ہوں وہ اپنا ارادہ ترک کردیں کیونکہ موجودہ حالات کے اعتبار سے افضل ہمارے یہاں وہی حج ہے جو مروجہ سواری یعنی ہوائی جہاز کے ذریعے ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ سوال نامہ میں مذکور شخص کے پیدل حج کو سنت یا بہت بڑا کارِ ثواب سمجھ رہے ہیں یا جو لوگ پیدل حج کو ناجائز یا جاہلانہ عمل سمجھ رہے ہیں ان سب کو اپنی اصلاح کرلینا چاہیے۔

نوٹ : جن لوگوں نے پیدل حج کے لیے نکلنے والے اس نوجوان کو ایک تماشہ بنالیا ہے اور اسے تفریح کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے، اس کے راستے میں پھول وغیرہ بچھاکر فضول خرچی کررہے یہاں تک کہ خواتین بھی اس پر پھولوں کی بارش کررہی ہیں۔ یہ سب خلافِ شرع اور ناجائز عمل ہے، خواتین کو تو قطعاً اس کے استقبال کے لیے سڑکوں پر نہیں آنا چاہئے اور مردوں کو بھی بھیڑ نہیں کرنا چاہیے کہ یہ عمل اس نوجوان کے لیے ذہنی، جسمانی نیز قانونی طور پر دشواری کا سبب بن سکتا ہے۔ صرف اتنا کرلینا کافی ہوگا کہ جس علاقے سے وہ گذرے اس علاقے کے سرکردہ افراد اس سے ملاقات کرکے خیر خیریت دریافت کرلیں اور کسی چیز کی ضرورت ہوتو وہ مہیا کردیں، اور اسے اپنے سفر پر روانہ کردیں۔

امید ہے کہ مسئلہ ھذا پر اتنی باتیں مستفتی اور دیگر قارئین کے لیے کافی شافی ہوں گی۔

قالَ اللہُ تعالیٰ : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔ (سورہ آلِ عمران : ۹۷)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : الزَّادُ، وَالرَّاحِلَةُ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۸۱۳)

الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا علی الزاد والراحلۃ فاضلا عن المسکن وما لابد منہ، وعن نفقۃ عیالہ إلی حین عودہ۔ الخ (ہدایۃ، کتاب الحج، أشرفیہ دیوبند ۱/ ۲۳۱-۲۳۳)

(وَلَنَا) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَّرَ الِاسْتِطَاعَةَ: بِالزَّادِ، وَالرَّاحِلَةِ جَمِيعًا فَلَا تَثْبُتُ الِاسْتِطَاعَةُ بِأَحَدِهِمَا، وَبِهِ تَبَيَّنَ أَنَّ الْقُدْرَةَ عَلَى الْمَشْيِ لَا تَكْفِي لِاسْتِطَاعَةِ الْحَجِّ ثُمَّ شَرْطُ الرَّاحِلَةِ إنَّمَا يُرَاعَى لِوُجُوبِ الْحَجِّ فِي حَقِّ مَنْ نَأَى عَنْ مَكَّةَ فَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ، وَمَنْ حَوْلَهُمْ فَإِنَّ الْحَجَّ يَجِبُ عَلَى الْقَوِيِّ مِنْهُمْ الْقَادِرِ عَلَى الْمَشْيِ مِنْ غَيْرِ رَاحِلَةٍ؛ لِأَنَّهُ لَا حَرَجَ يَلْحَقُهُ فِي الْمَشْيِ إلَى الْحَجِّ كَمَا لَا يَلْحَقُهُ الْحَرَجُ فِي الْمَشْيِ إلَى الْجُمُعَةِ۔ (بدائع الصنائع : ٢/١٢٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی الحجہ 1443

24 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ معتدل منصف اور تشفّی بخش جواب ہے- اللہ عافیت کا معاملہ فرمائے-آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. Bilkul sahi or munasib o mutadil jawab

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ آپ نے مسئلہ کا تشفی بخش جواب دیا اور تمام نوعیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب دیا
    اللھم زد فزد بارك الله فيك و في علمك وعملك وعمرك مع العافية

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاءاللہ بہت اچھا فتوی دیا ہے جواب دیا ہے حضرتنے اللہ تمام لوگوں کو اس کی سمجھ عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  5. جزاک اللہ خیر

    لایعنی کاموں میں لوگ مبتلا ہیں، اسی میں اس عمل کا جواز اور عدم جواز اپنے اپنے طور سے پیش کررہے ہیں، دونوں ہی طرف سے اعتدال سے تجاوز پایا جا رہا ہے، ایسے میں آپ کا مضمون بہتر ہے، جو اعتدال پر مبنی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  6. ماشاءاللہ، اَللّٰھُمَّ زِد فزِد، ﷲ پاک استاذِ مکرم کے علم میں مزید ترقی عطاء فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  7. ماشا۶اللہ تبارک اللہ فی علمک ۔۔۔جواب بہت تشفی بخش ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریر کو پرنٹ میڈیا تک بھی ارسال کیا جائے اور خاص طور سے ملک کے نامور اردو اخبارات تک ۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہت اچھا مولانا. آپ کی ان باتوں سے بہت سارے سوالوں کے حل خود بخود حل ہو گئے

    جواب دیںحذف کریں
  9. اللہ رب العزت حضرت مفتی صاحب کی عمر میں برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  10. اس فتوے کو اخبارات رسإل ومجللا ت میں شإع کیا جاۓماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  11. ماشاءاللہ معتدل فتوی ھے

    جواب دیںحذف کریں