ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

اجتماعی اعتکاف اور اس کے اعلان کا حکم

*اجتماعی اعتکاف اور اس کے اعلان کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت اور اس کے لئے پمفلٹ وغیرہ سے اشتہار اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اعتکاف کسی دوسرے شہر میں یا دوسرے محلے میں کرنے کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے اور جمے رہنے اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنے کے ہیں. اصطلاح شریعت میں عبادت کی نیت سے اللہ تعالٰی کے لیے مسجد میں رکے رہنے کا نام اعتکاف ہے، اعتکاف ایک اہم ترین عبادت اور قرب خداوندی کا بہترین ذریعہ ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اعتکاف کا مقصد یوں بیان فرماتے ہیں کہ جب انسان کے افکار اور اذہان مختلف باتوں سے پراگندہ (میلے کچیلے) ہوجاتے ہیں اور لوگوں کے میل جول سے آدمی سخت پریشان ہوجاتا ہے تو اس پراگندگی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو مشروع فرمایا ہے، اعتکاف کرنے والا آدمی عام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرکے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت میں مصروف ہوجاتا ہے، جس کی بدولت اس کی ذہنی پریشانی اور قلبی بے چینی دور ہوجاتی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

شریعت مطہرہ نے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کے اعتکاف کو سنت مؤکدہ علی الکفایہ قرار دیا ہے۔ مطلب محلہ کی مسجد میں ایک دو شخص بھی اعتکاف کرلیں تو محلہ کے تمام افراد کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی۔

اعتکاف کے فضائل متعدد احادیث میں وارد ہوئے ہیں، اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اعتکاف کے متعلق روایات شاہد ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اس کا ناغہ نہیں فرمایا۔ لہٰذا ہر شخص کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اسے یہ سعادت اور فضیلت حاصل ہو اور اس کے قلب کے سکون و اطمینان کا سامان ہو۔

درج بالا تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اعتکاف کا ایک مقصد جو کہ دلوں کی بے چینی کا دور کرنا ہے، اور تنہائی اور یکسوئی کی عبادات کے نور سے دلوں کو اطمینان و سکون بخشنا ہے، اس کا بھی علم ہوجائے جو کہ معتکف کو مخلوق سے ہٹ کٹ کر تنہائی میں حاصل ہوگا، جبکہ اجتماعی بھیڑ بھاڑ والے اعتکاف میں وہ یکسوئی نہیں رہتی، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہ چیز اجتماعی صورت والے اعتکاف میں بالکل بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔

آپ کے سوالات کے جوابات میں بندہ ملک کے مشہور و معروف عالم دین و محقق حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی دامت فیوضھم کے اسی نوعیت کے ایک سوال کا جواب نیز دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی یہاں نقل کررہا ہے جس سے امید ہے کہ آپ کو مکمل تشفی ہوجائے گی۔

اگر بلا تداعی (بغیر اعلان) اعتکاف میں اجتماع کی شکل ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ کے یہاں لوگ تربیت حاصل کرنے کی غرض سے آتے تھے اور اجتماعی  شکل ہوجاتی تھی، مگر لوگوں کو مدعو کرکے اجتماع کرنا یا باقاعدہ تشہیر کرانا جائز نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت میں اخفاء زیادہ مناسب ہے۔ آگے مزید لکھتے ہیں :

اپنے یہاں معتکفین کی تعداد بڑھانے کیلئے باقاعدہ اعلان اور اشتہار چسپاں کرانا جس سے اعتکاف کا مقصود فوت ہوجائے، شریعت میں محمود نہیں بلکہ سخت ممنوع ہے کیونکہ یہ تداعی إلیٰ النوافل ہے جو مکروہ ہے، اسی طرح یہ اعلان کرانا کہ ہمارے یہاں قیام وطعام کا بھی نظم ہے تاکہ لوگ وہاں پہونچیں اور اعتکاف کریں درست نہیں، البتہ جو لوگ اپنے شیخ کے یہاں محض بغرض اصلاح نفس اور تربیت حاصل کرنے ہی کیلئے آتے ہیں، اور اسی ضمن میں اعتکاف بھی کرلیتے ہیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ (فتاوی قاسمیہ : ١١/٥٤٧)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اگر کوئی متبع سنت شیخ اپنے مریدین اور متعلقین کے ساتھ ماہ رمضان میں کسی جگہ مجتمع ہو جائیں، تاکہ اعتکاف کے ساتھ ساتھ مریدین کی اصلاح وتربیت بھی ہوجائے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جائز ہے؛ لیکن تداعی، اتہام اور باقاعدہ اشتہارات وغیرہ کے ذریعے ”اجتماعی اعتکاف“ کا نظم کرنا جیسا کہ آج کل بعض جگہوں پر ہونے لگا ہے یہ قابل ترک ہے۔ رہا تداعی کے ساتھ نفل کی باجماعت ادائیگی تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ چار یا اس سے زائد مقتدیوں کے ساتھ باجماعت نفل پڑھنا خواہ ماہِ رمضان میں ہو یا کسی اور مہینے میں شرعاً مکروہ ہے، اس لئے اس سے بھی احتراز ضروری ہے۔
(۳) اگر کوئی شخص اپنی اصلاح کے خاطر کسی متبع سنت شیخ کی نگرانی اور ان کی تربیت میں اعتکاف کے لئے سفر کرتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر اس طرح کی کوئی مصلحت نہ ہو تو اپنے محلہ ہی میں اعتکاف مناسب ہے۔ (رقم الفتوی : 163874)

اعتکاف اپنے علاقے کی مسجد میں کرنا افضل ہے۔ لیکن اگر کسی مصلحت مثلاً اپنے پیر ومرشد کی صحبت یا کسی اور دینی فائدہ کی غرض سے دوسرے محلہ یا دوسرے شہر کی مسجد میں اعتکاف کیا جائے، تو اس کی بھی اجازت ہے، لیکن اس کا خیال رہے کہ محلہ کی مسجد میں کم از کم ایک آدمی اعتکاف کرلے، ورنہ دوسری مسجد میں اعتکاف کرنے والے پر بھی اس کا وبال ہوگا۔

وسنۃ مؤکدۃ في العشرالأخیر من رمضان أي سنۃ کفایۃ کما فی البرہان۔ (الدر المختار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف ، ۲/۴۴۲)

التطوع بالجماعۃ إذاکان علی سبیل التداعی یکرہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، ۱/۱۴۱)

وأما الأفضل فأن یکون في المسجد الحرام ثم مسجد المدینۃ ، وھو مسجد رسول اللہ ﷺ ثم مسجد بیت المقدس ثم مسجد الجامع۔ (البحرالرائق : ۲/۵۲۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رمضان المبارک 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں