اتوار، 28 اکتوبر، 2018

انتقال کے بعد شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا انتقال کے بعد بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے؟ کیا شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے؟ براہ کرم مدلل اور مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد شہراز، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شوہر کے انتقال کے بعد بیوی عدتِ وفات مکمل ہونے تک اس کے نکاح میں ہوتی ہے۔ لہٰذا جب وہ اس کے نکاح میں ہوتی ہے تو اس کے لیے شوہر کو دیکھنا، چھونا اور بوقتِ ضرورت غسل دینا سب جائز ہے۔ اس بات پر فقہاء امت کا اتفاق ہے، کسی کا اختلاف نہیں۔

قال الإمام ابن قدمة في المغني : (مَسْأَلَةٌ: قَالَ: وَتُغَسِّلُ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ تُغَسِّلُ زَوْجَهَا إذَا مَاتَ. قَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْ اسْتَقْبَلْنَا مِنْ أَمْرِنَا مَا اسْتَدْبَرْنَا؛ مَا غَسَّلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إلَّا نِسَاؤُهُ۔ (رَوَاهُ أَبُودَاوُد)

اختلاف شوہر کے بیوی کو غسل دینے پر ہے۔
احناف کے نزدیک شوہر اپنی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا اور ہی نہ ہی اسے چھو سکتا ہے، البتہ اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔

ائمۂ ثلاثہ کے نزدیک شوہر غسل بھی دے سکتا ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا۔

ان کی دلیل پر ہمارا جواب یہ ہے کہ پہلے تو اس پر اتفاق نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہی غسل دیا تھا۔ کیونکہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے غسل دیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف غسل دینے کی نسبت اس وجہ سے ہے کہ غسل کا سارا انتظام آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا غسل دینا زوجیت قائم رہنے پر محمول ہے، اور یہ آپ رضی اللہ عنہ کی خصوصیت تھی، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
ان فاطمۃ زوجتک فی الدنیا والاخرۃ
ترجمہ : فاطمہ تمہاری زوجہ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
کل سبب ونسب ینقطع بالموت الا سببی ونسبی ۔
ترجمہ : ہر سبب اور نسب موت سے منقطع ہوجاتا ہے مگر میرا سبب (قرابت سببی) اور نسب (قرابت نسبی) موت سے منقطع نہیں ہوتا۔

خلاصہ یہ کہ زیادہ صحیح قول کے مطابق اسی طرح احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ شوہر کا بیوی کو غسل دینا درست نہیں ہے۔

مسئلہ ھذا کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ قرآنی حکم یہ ہے کہ ایک عورت کے نکاح میں رہتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح جائز نہیں ہوگا۔ لہٰذا انتقال کے بعد جب یہ عورت اس کے نکاح سے نکلے گی تب ہی تو اس کی بہن سے نکاح جائز ہوگا۔ یعنی ایک گونہ بیوی شوہر کے نکاح نکل جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بغیر کپڑے کے اسے چھونا شوہر کے لیے درست نہیں ہے، البتہ اسے دیکھ سکتا ہے۔ اور بوقت ضرورت قبر میں اتار بھی سکتا ہے، اس سلسلے میں بعض لوگ بہت سختی برتتے ہیں یعنی شوہر کو گھر کے باہر نکال دیتے ہیں اور اسے بوقت ضرورت بھی کپڑے کے اوپر سے بھی چھونے نہیں دیتے، یہ بات غلط ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔

(ويمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إليها على الاصح) منية. وقالت الائمة الثلاثة: يجوز، لان عليا غسل فاطمة رضي الله عنهما. قلنا : هذا محمول على بقاء الزوجية لقوله عليه الصلاة والسلام: كل سبب ونسب ينقطع بالموت، إلا سببي ونسبي مع أن بعض الصحابة أنكر عليه شرح المجمع للعيني، الخ۔ (الدر المختار : ١٠٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الاول 1439

1 تبصرہ: