ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

یوم الشک اور اس کے روزہ کا حکم​

*یوم الشک اور اس کے روزہ کا حکم​*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا تیس شعبان کو یوم الشک کہا جاتا ہے؟ یوم الشک کی تعریف کیا ہے؟ اور اس دن روزے کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ مبین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شعبان کی انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ کی وجہ سے چاند نہیں دیکھا گیا مگر ایک شخص نے چاند دیکھنے کی شہادت دی اور اس کی شہادت قبول نہیں کی گئی، اسی طرح دو فاسق لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی اور ان کی گواہی قبول نہیں کی گئی اس کی صبح کو جو دن ہوگا یعنی تیس تاریخ کو یوم الشک (شک کا دن) کہلائے گا، کیونکہ اس دن کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع ہوگیا ہو اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع نہ ہوا ہو لہٰذا اس غیر یقینی صورت کی وجہ سے اسے شک کا دن کہا جاتا ہے، لیکن اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ نہ ہو اور کوئی بھی شخص چاند نہ دیکھے تو تیس تاریخ کو یوم الشک نہ کہیں گے۔

حدیث شریف میں آتا ہے :
حضرت عمار بن یاسر ؓ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے یوم الشک کو روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ (ابوداؤد)

اس حدیث میں اسی دن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یوم الشک کو رمضان یا کسی واجب روزے (مثلاً قضا و کفارہ وغيرہ کا روزہ) کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ البتہ اس دن نفل روزہ رکھنے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے جو درج ذیل ہے۔

اگر کوئی شخص شعبان کی پہلی ہی تاریخ سے نفل روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو یا تیس تاریخ اتفاق سے اس دن ہو جائے کہ جس میں کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو تو اس کے لئے اس دن روزہ رکھنا بلا کراہت درست ہوگا۔ اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر یوم الشک کا مسئلہ یہ ہے کہ خواص اس دن نفل کی نیت کے ساتھ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو شک کے دن کے روزے کی نیت کرنا جانتے ہوں اور جو لوگ اس دن کے روزے کی نیت کرنا نہ جانتے ہوں انہیں عوام کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس دن روزہ کی نیت یہ ہے کہ جو شخص اس دن کہ جس میں رمضان کے بارے میں شک واقع ہو رہا ہے روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ یہ نیت کرے کہ میں آج کے دن نفل روزے کی نیت کرتا ہوں اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اگر آج رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان کا بھی ہے۔ اس طرح نیت کرنی مکروہ ہے کہ اگر کل رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان میں شمار ہو اور اگر رمضان کا دن نہ ہو تو نفل یا کسی اور واجب روزے میں شمار ہو۔ تاہم اگر کسی نے اس طرح کر لیا اور اس دن رمضان کا ہونا ثابت ہو گیا تو وہ روزہ رمضان ہی میں شمار ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ روزہ رکھے کہ اگر آج رمضان کا دن ہوگا تو میرا بھی روزہ ہوگا اور اگر رمضان کا دن نہیں ہوگا تو میرا روزہ بھی نہیں ہوگا، تو اس طرح نہ نفل کا روزہ ہوگا اور نہ رمضان کا ہوگا چاہے اس دن رمضان کا ہونا ہی ثابت کیوں نہ ہو جائے۔

حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ اور دوسرے صحابہ کا یہ معمول نقل کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرتے اگر چاند دیکھ لیتے یا معتبر شہادت کے ذریعے رویت ہلال کا ثبوت ہو جاتا تو اگلے روز روزہ رکھتے ورنہ بصورت دیگر ابر و غبار وغیرہ سے مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھتے ہاں اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے اور علماء فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان کا یہ روزہ نفل ہوتا تھا۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ قَالَ : كُنَّا عِنْدَ عَمَّارٍ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ، فَأَتَى بِشَاةٍ، فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ عَمَّارٌ : مَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٣٣٤)

عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ ثَلَاثِينَ ". قَالَ : فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا كَانَ شَعْبَانُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ نُظِرَ لَهُ، فَإِنْ رُئِيَ فَذَاكَ، وَإِنْ لَمْ يُرَ وَلَمْ يَحُلْ دُونَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ وَلَا قَتَرَةٌ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَإِنْ حَالَ دُونَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ أَوْ قَتَرَةٌ أَصْبَحَ صَائِمًا. قَالَ : فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُفْطِرُ مَعَ النَّاسِ وَلَا يَأْخُذُ بِهَذَا الْحِسَابِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٣٢٠)

وکرہ فیہ أی یوم الشک کل صوم من فرض وواجب إلا صوم نفل جزم بہ بلا تردید بینہ وبین صوم آخرالخ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصوم، دارالکتاب دیوبند/۶۴۷)

وکرہ الصوم تنزیہا إن نویٰ یوم الشک واجبا سواء کان ذلک الواجب رمضان أو غیرہ لکن کراہۃ رمضان أشد من کراہۃ غیرہ ۔(شرح النقایہ ، اعزازیہ دیوبند/۱۷۰، وہکذا فی الہندیۃ قدیم۱/۲۰۰، ۲۰۱، جدید زکریا۱/۲۶۲، فتاویٰ قاضیخان علی ہامش الہندیۃ ، زکریا۱/۲۰۶، جدید زکریا دیوبند۱/۱۲۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
4 رمضان المبارک 1439

5 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ.... بارک اللہ فیکم... اللھم زدفزد

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ
    جزاکم اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  3. جی مفتی صاحب ! اب پوچھنا یہ ہے کہ بہتر ہے کیا یوم الشک کا روزہ رکھنا جن کا معمول نہ ہو اور وہ خاص طریقے سے نیت کریں ؟

    جواب دیںحذف کریں