اتوار، 28 اکتوبر، 2018

نمازوں کے علاوہ دیگر مواقع پر اذان کا حکم

*نمازوں کے علاوہ دیگر مواقع پر اذان کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! کسی نا گہانی حادثہ جیسے ایکسیڈنٹ، فتنہ و فساد، آگ زنی، سیلاب، آندھی طوفان جیسی صورتحال میں اذان دینا کیسا ہے؟ اور اس کے احکامات کیا ہیں؟ ازراہِ کرم رہبری فرما کر عند للہ ماجور ہوں۔
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزا۔
(المستفتی : رضوان سر، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع پر فقہاء نے اذان دینے کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً :

١) جو شخص غم زدہ ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا غم ہلکا ہوجاتا ہے۔

٢) جس شخص کو بیماری کے دورے پڑتے ہوں، اس کے لئے بھی اذان دینا مفید ہے۔

٣) جس شخص پر غصہ غالب ہوجائے تو اذان دینا اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہے ۔

٤) جو جانور بدک جائے یا جس انسان کے اخلاق بگڑجائیں اس پر بھی اذان دینا مفید ہے ۔

٥) جب دشمن کی فوج حملہ آور ہو، اُس وقت اذان دی جائے ۔ (فسادات کے موقع پر اذان کا بھی یہی حکم ہے)

٦) آگ پھیل جانے کے وقت ۔

٧) جو شخص جنگل میں راستہ بھٹک جائے وہ بھی اذان دے سکتا ہے ۔

البتہ مذکورہ اوقات میں اذان دینے کو مسنون نہیں کہا جائے گا اس لیے کہ یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے، بلکہ اسے مجربات کی قبیل سے کہا جائے گا، لہٰذا ان مواقع پر ضروری یا مسنون سمجھ کر اذان دینا درست نہ ہوگا ۔

وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذن المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخیر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا۔ (شامي ۲؍۵۰ زکریا، ۱؍۳۸۵ کراچی، منحۃ الخالق ۱؍۲۵۶ کوئٹہ)

وکذا یندب الأذان وقت الحریق و وقت الحرب، وخلف المسافر، وفي أذن المہموم والمصروع۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل ۱۹۴ بیروت)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 صفر المظفر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں