بدھ، 17 اکتوبر، 2018

ائمہ، مؤذنین و مدرسین کا مرتبہ اور ان کی تنخواہیں

*ائمہ، مؤذنین و مدرسین کا مرتبہ اور ان کی تنخواہیں*

                    *ایک لمحہ فکریہ*

✍ محمد عامرعثمانی ملی
(امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! اسلام میں ائمہ مؤذنین و مدرسین کا منصب بڑا معزز اور جلیل القدر مانا گیا ہے، اور اس عہدے پر فائز رہنے والوں کو بڑی عزت و احترام سے دیکھا جاتا رہا ہے، متعدد احادیث مبارکہ میں ان کے بہت سارے فضائل بیان کئے گئے ہیں، جن میں سے چند فضائل درج ذیل ہیں :

حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا: امام ضامن ہوتا ہے اور  مؤذن امانت دار ہوتا ہے (پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا فرمائی) اے اللہ ! اماموں کی ہدایت دے (یعنی ان کو نیک علم، صالح علم اور صلاح و تقوی کی توفیق دے) اور مؤذنوں (سے اگر اذان کہنے میں کمی و زیادتی ہو جائے تو ان) کو بخش دے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی)
ضامن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ امام دوسروں کی نماز کا ذمہ دار ہوتا ہے، اس طور پر کہ وہ متقدیوں کے امورِ نماز مثلاً قرأت کا اور اگر مقتدی رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے تو قیام وغیرہ کا متکفل ہوتا ہے اسی طرح وہ سب کی نمازوں کے افعال و ارکان نیز رکعتوں کی تعداد پر نگاہ رکھتا ہے ۔
مؤذنین کے امانت دار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے سلسلے میں اذان کی آوازوں پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا : اذان دینے والے کی بخشش اس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے ۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے ایمان کے گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں) لکھا جاتا ہے اور نمازوں کے درمیان اس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں معاف ہو جاتے ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) 

حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کئے اور (دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں اور (تیسرا) وہ آدمی جو رات دن (یعنی ہمیشہ) پانچوں وقت کے نماز کے لئے اذان کہتا ہے۔ (جامع ترمذی)
بروز قیامت ان تینوں کو مشک کے ٹیلے اس لئے ملیں گے کہ یہ لوگ دنیا میں خواہشات نفسانی کی لذتوں کو اطاعت الہٰی اور فرمانبرداری رسول ﷺ کی سختیوں پر قربان کر دیں گے اس لئے پروردگار عالم اس کے صلہ میں انہیں خوشبو کی صورت میں عظیم انعام عطا فرمائے گا تاکہ دوسرے لوگوں پر ان کی عظمت و بزرگی ظاہر ہو سکے ۔

حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز سب سے زیادہ لمبی (اور عزت کی وجہ سے) اونچی گردن والے،  مؤذنین ہوں گے ۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ جانتے کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے پھر اس کو بغیر قرعہ اندازی کے نہ پاتے ۔ تو بلا شبہ قرعہ اندازی کرتے ۔ (متفق علیہ)

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم ﷺ کا گزر دو مجلسوں پر ہوا، جو مسجد نبوی میں منعقد تھیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ دونوں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک (نیکی میں) دوسرے سے بہتر ہے۔ ایک جماعت عبادت میں مصروف ہے، اللہ سے دعا کر رہی ہے اور اس سے اپنی رغبت کا اظہار کر رہی ہے (یعنی حصول مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف امید ہے اور حصول مقصد خواہش الہٰی پر موقوف ہے) لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور اگر چاہے نہ دے اور دوسری جماعت فقہ یا علم حاصل کر رہی ہے اور جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے، چنانچہ یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلّم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ خود بھی ان میں بیٹھ گئے ۔ (سنن دارمی)
علم اورمعلمین کی اس سے زیادہ اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ سردار انبیاء ﷺ نے عابدوں کی مجلس کو چھوڑ کر عالموں ہی کی ہم نشینی اختیار فرمائی ہے اور اپنے آپ کو ان ہی میں سے شمار کیا ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں بھلائی کی تعلیم دینے والے شخص کے لئے ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعائے مغفرت کرتی ہیں۔ (سنن دارمی)

حضرت عثمان ؓ روایت کرتے ہیں ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا ۔ (صحیح بخاری)
جوشخص قرآن سیکھے جیسا کہ سیکھنے کا حق ہے اور پھر دوسروں کو سکھائے تو وہ سب سے بہتر ہے کیونکہ جس طرح قرآن اور اس کے علوم دنیا کی تمام کتابوں اور علوم سے افضل اور اعلیٰ و ارفع ہیں اسی طرح قرآنی علوم کو جاننے والا بھی دنیا کے افراد میں سب سے ممتاز اور کسی بھی علم کے جاننے والے سے افضل اور اعلیٰ ہے ۔

مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ اور ان کی تشریحات سے یہ بات مکمل وضاحت کے ساتھ معلوم ہوجاتی ہے کہ امامت، موٴذنی اور علمِ دین کی تدریس اللہ تعالٰی کے نزدیک نہایت مؤقر عمل ہے، اور ان لوگوں کے لیے اللہ تعالٰی کی خاص رحمت و انعام مقدرہے ۔ ان فضائل کو جان لینے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں بلاشبہ یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی امام، مؤذن یا مدرس ہوتا لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ دور میں اپنے معاشرے کے ائمہ اور موٴذنین، و مدرسین کے حالات اور ان کے ساتھ لوگوں کے سلوک و رویّوں کا جائزہ لیں تو بہت افسوس اور تکلیف ہوتی ہے، آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ دیندار اور باشعورسمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت بالخصوص موٴذنی اور مکاتب کی مدرسی کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بعض مساجد و مدارس کے ذمہ داران مختلف طریقوں سے ان حضرات کو ہراساں کرتے رہتے ہیں، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے، خصوصاً مؤذنین کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا، بلاشبہ ان سے غلطیاں و کوتاہیاں بھی ہوتی ہوں گی، لیکن ایسے وقت میں ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں تنہائی میں تنبیہ کی جائے، لوگوں کے سامنے ان سے سخت کلامی کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے، ذمہ داران کے علاوہ بعض مصلیان بھی مؤذنین سے الجھ جاتے ہیں، ایسے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جن کی گھر میں نہیں چلتی وہ مسجد میں آکر اپنی چلاتے ہیں، چنانچہ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک عام مسلمان، امام باالخصوص موٴذن اور مکتب کا مدرس بننے کی حسرت اور خواہش کو دل میں ہی دبا دیتا ہے ۔ اور دیگر دنیاوی مشاغل کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے ۔

لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے اِس غیر شرعی فعل سے باز آجانا چاہیے، ورنہ ان سے بروزِ حشر سخت مؤاخذہ ہوگا، جہاں ان کی ایک ایک زیادتی کا حساب چُکتا کیا جائے گا ۔

اسی طرح ان حضرات کا تنخواہوں کے ذریعے بھی استحصال کیا جارہا ہے، خطیر رقم مسجد و مدرسے میں سلک ہونے اور آمدنی کے متعدد ذرائع ہونے کے باوجودقلیل تنخواہیں دی جارہی ہیں، بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد، مدرسہ کا پیسہ بچا رہے ہیں، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کرکے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں، ان حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔
چندہ دہندگان چندہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے دیتے ہیں جن میں سرِ فہرست امام و مؤذن کی تنخواہ ہوتی ہے، اور اکثر چندہ دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ امام و مؤذن کی تنخواہ بہتر سے بہتر ہو، چنانچہ ان رقومات پر ذمہ داران کا ناگ بن کر بیٹھ جانا اور غیر معقول تنخواہ دینا قطعاً ناجائز ہے، انھیں اپنی اس روِش کو ترک کرنا ضروری ہے ۔
الحمدللہ شہر میں ایسے بھی ذمہ دارانِ مساجد ہیں جو خود امام و مؤذن کی مکمل اور معقول تنخواہ کا نظم کرتے ہیں، یا تنخواہ کا ایک حصہ اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انھیں جزائے خیر عطا فرمائے، اور دیگر ذمہ داران کے لیے انھیں مشعلِ راہ بنائے ۔ آمین

لیکن جب شہرِعزیز مالیگاؤں کی تمام مساجد اور مکاتب کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں ائمہ و مؤذنین کی ہفتہ واری تنخواہیں بارہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہیں، چند مساجد ہوں گی جہاں معقول یعنی دو ہزار سے پچیس سو تک تنخواہ دی جاتی ہیں (الحمدللہ، ان میں بندے کی مسجد بھی شامل ہے، اس وضاحت کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تاکہ اس تحریر سے بدگمانی نہ ہو، کیونکہ یہ تحریر خالص پریشان حال ائمہ و مؤذنین و مدرسین کے حق میں لکھی جارہی ہے) پڑوسی شہر دھولیہ کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے، وہاں اب تک ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں ماہانہ تین ہزار تا پانچ ہزار ہیں ۔ (اہلیان دھولیہ شہر کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے)
مکاتب میں پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے مدرسین کی تنخواہیں عموماً تین ہزار تا پانچ ہزار دی جارہی ہیں ۔ حیرت اور درد کا ایک جھٹکا آپ کو اس وقت بھی لگے گا جب آپ دینی مکاتب و مدارس میں خدمات انجام دینے والی معلمات یہاں تک کہ فقہ اور حدیث شریف تفسیر قرآن کریم کا درس دینے والی جید عالمات کی تنخواہوں کے متعلق معلومات حاصل کریں گے، پانچ سے سات گھنٹہ تعلیم دینے والی ان معلمات کی تنخواہیں ماہانہ دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہیں ۔

کیا اسے استحصال نہیں کہا جائے گا؟

اب آپ خود موازنہ کرلیں کہ ایک مزدور بھی کم از کم دس ہزار ماہانہ کمالیتا ہے، جبکہ دینِ متین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کوشش میں اپنا بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے؟

اس امت  کے بعض افراد نے آج اسے ایک مزدور کے مقام پر کھڑا کردیا ہے ۔

لہٰذا ذمہ دارانِ مساجد و مدارس کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے، اسی طرح نوجوانانِ ملت کو بھی محلہ کی مسجد کے امام و مؤذن و مدرسین کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے، اور مسجد مدرسے کی آمدنی کے سلسلے میں ذمہ داران کا تعاون بھی کرتے رہنا چاہیے، تب جاکر معاملات قابو میں آئیں گے، اور ان حضرات کی تنخواہوں کا معیار بلند ہوگا ۔ ان شاءاللہ

اخیر میں ائمہ، مؤذنین اور معلمین سے مخلصانہ درخواست ہے کہ اپنے منصبِ جلیلہ کو پیشے کی نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ اسے سعادت سمجھیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ پر بہت بڑا انعام ہے، لہٰذا کما حقہ اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کی کوشش کریں، قوم اگر آپ کی قدر نہ بھی کرے تب بھی آپ اپنی ذمہ داریوں کو اخلاص کے ساتھ احسن طریقے سے نبھاتے رہیں، ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں کہ قوم آپ کی خدمات کو سمجھ کر آپ کے مرتبہ کے مطابق آپ کا اعزاز کرے گی، اور اگر نہ بھی کرے تب بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی کا جذبہ ہوگا تو آخرت کا اجرِعظیم تو بہرحال مل کر رہے گا ۔ ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین

اللہ تعالٰی ہم سب کو ان نفوس قدسیہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے، اور بقدر استطاعت ان حضرات کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں