اتوار، 28 اکتوبر، 2018

اساتذہ کے تقرر کے وقت انتظامیہ کا ڈونیشن کے عنوان سے رقم کا لین دین کرنا

*اساتذہ کے تقرر کے وقت انتظامیہ کا ڈونیشن کے عنوان سے رقم کا لین دین کرنا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ :
زید ایک عصری ادارے کا چئیرمین و صدر ہے جس کے تحت ہائی اسکول چلتا ہے، جو حکومت سے منظور شدہ ہے، اور اس کے مستقل اساتذہ کی تنخواہ حکومت ادا کرتی ہے. اس ہائی اسکول میں جب بھی کوئی ٹیچر ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اس کی جگہ نئے ٹیچر کی بھرتی ہوتی ہے یا طلبہ کی تعداد میں اضافہ کے سبب اس ادارے کو نئے اساتذہ کی بھرتی کی اجازت دیتی ہے. نئے ٹیچر کی بھرتی کرتے وقت تعلیمی ادارہ کے چئیرمین یا صدر صاحب بے روزگار تعلیم یافتہ خواہشمندوں سے عریضے منگواکر ان کا انٹرویو بھی لیتے ہیں. آخیر میں مستقل نوکری کے نام پر دس تا پندرہ لاکھ روپے تعلیمی ادارہ کے لئے ڈونیشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور جو امیدوار رقم ادا کردیتا ہے اسے نوکری دے دیتے ہیں. بعض اوقات مجبور اساتذہ گھر بار، زیورات، بیچ کر ڈونیشن کی رقم کا مطالبہ پورا کرتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مالی کمزوری کے سبب قابل امیدوار کا حق مارا جاتا ہے اور نااہل امیدوار صرف روپے کے بل پر ملازمت حاصل کرلیتا ہے، ڈونیشن وصول کرنے کی حکومت کی طرف سے اجازت قطعی نہیں ہوتی. چئیرمین یا صدر اپنے تعلیمی ادارے کی ترقی و استحکام اور تعمیرات کے نام پر یہ رقم لیتے ہیں اور بہت ممکن ہے یہ رقم وہ بلڈنگ کی تعمیر میں لگاتے بھی ہوں تب بھی کیا اس طرح زید کا ڈونیشن وصول کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟ ایسا کرنے والے چئیرمین یا صدر کس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں؟ اور اپنے چئیرمین یا صدر کی خاموش تائید و حمایت کرنے والے اراکین ٹرسٹ اور ہیڈماسٹر شرعاً قصور وار ہیں یا نہیں؟
ڈونیشن وصول کرنے والے چئیرمین صاحب ماشاءاللہ حاجی، نمازی اور مدرسے کے ٹرسٹی بھی ہیں تب بھی کیا وہ شریعت کی نظر میں بے گناہ ہوسکتے ہیں؟ براہ کرم اس سلسلے میں مفصل جواب شریعت کی روشنی میں مرحمت فرمائیں ۔
( المستفتی : عبدالرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطہرہ نے کسی کا مال ناحق لینے کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے، قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
ترجمہ: اے ایمان والوں نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے اور نہ خون کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد فرمایا :
وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا۔
ترجمہ : اور جو کوئی یہ کام کرے تعدی سے اور ظلم سے تو ہم اس کو ڈالیں گے آگ میں اور یہ اللہ پر آسان ہے۔

یعنی قرآنی ہدایت کے باوجود اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرے اور جان بوجھ کر تعدی اور ظلم کی راہ سے کسی کا مال ناحق لے لے تو ایسا شخص نار جہنم کا مستحق ہوگا، رشوت لینا بھی اسی میں داخل ہے جیسا کہ آگے اس کی وضاحت آرہی ہے۔

"رشوت" کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی باطل غرض اور ناحق مطالبہ کے پورا کرنے کے لیے کسی ذی اختیار شخص کو کچھ دے۔ (مجمع البحار)

فتاوی عالمگیری میں ہے کہ اعانت و سفارش کی شرط پر مال کا لین دین کرنا رشوت ہے۔ (1)

اسی طرح اپنے فرض منصبی کی ادائیگی پر یا اس کے ترک کرنے پر کسی سے کچھ لینا رشوت کہلاتا ہے۔

رشوت کے لین دین پر احادیث مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر ﷲ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)

ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)

ذکر کردہ احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی ﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت کبیرہ گناہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان کا اس ملعون فعل سے بچنا ضروری ہے۔
        
صورت مسئولہ میں عصری ادارے کا اساتذہ کے تقرر کے وقت ڈونیشن کے خوبصورت نام سے رقم کا لین دین کرنا رشوت کے حکم میں ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں ناجائز اور حرام ہے۔ (4)

البتہ اگر کوئی امیدوار انٹرویو میں کامیاب ہوجائے، اور اس کے تمام مراحل مکمل کرلے، اور وہ اس ملازمت کا مستحق بھی ہے، اِس کے باوجود انتظامیہ اُس سے ڈونیشن کے نام سے کچھ رقم جمع کرنے کا مطالبہ کررہی تو بدرجۂ مجبوری اس کے لئے یہ رقم دینے کی گنجائش نکل سکتی ہے، اس صورت میں دینے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔اسی کے ساتھ وہ اپنے مفوضہ کاموں کو بخوبی انجام دے تو اس ملازمت پر ملنے والی اجرت بھی حلال ہوگی۔ (5)

لیکن منتظمین (چئیرمین، صدر، اسی طرح ادارہ کے اراکین و ہیڈماسٹر اگر اس کی تائید و حمایت میں ہوں) بہرصورت رشوت لینے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوں گے، خواہ وہ اس رقم کا استعمال اسکول کی عمارت کی تعمیر میں کرتے ہوں یا اسے ذاتی استعمال میں لایا جاتا ہو، اس لئے کہ جب حکومت کی طرف سے بھی اس کی اجازت نہیں ہے تو وہ ایسا کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ ڈونیشن لینے میں مزید دیگر قباحتیں ہیں، مثلاً اساتذہ کے تقرر میں شفافیت کا نہ ہونا جس کی وجہ سے غیر مستحق کو منصب مل جاتا ہے اور حقدار کو محروم ہونا پڑتا ہے، جس کا پورا نقصان قوم کے بچوں کا ہوتا ہے، گرتا ہوا معیار تعلیم واضح طور پر اس پر دلالت کرتا ہے، اور تعلیم و تعلم کا مقدس مشغلہ ایک تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ لہٰذا منتظمین کو چاہیے کہ ڈونیشن لینے والا ملعون فعل فوراً بندکردیں، اور اساتذہ سے ڈونیشن کے عنوان سے وصول کی گئی رقم انہیں واپس کردیں، اسکول کی تعمیر و توسیع اور اخراجات کی تکمیل کے لیے جائز طریقہ اختیار کریں، اس لئے کہ یہ بات بھی خلاف شرع و عقل ہے کہ آدمی دوسروں کی دنیا سنوارنے میں خود کی آخرت برباد کرلے، مالداروں سے چوری کرکے لائے اور غرباء میں تقسیم کردے، کیونکہ انتظامیہ یہ عذر بھی پیش کرتی ہے کہ اسکول چلانے کے لیے ڈونیشن لیا جاتا ہے، شریعت میں اس طرح کے عذر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ ڈونیشن کی رقم کی عدم واپسی کی صورت میں منتظمین مستحق عتاب الٰہی ہوں گے، اور بروز حشر قابل مؤاخدہ بھی ہوں گے، اسی طرح ڈونیشن وصول کرنے والے چئیرمین صاحب کا حاجی، نمازی ہونا انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا، اِلّا یہ کہ اساتذہ انہیں معاف کردیں۔ (6)

البتہ اگر اساتذہ کی گرانٹ حاصل کرنے کے لئے منتظمین کی کوئی رقم خرچ ہوتی ہو تو اتنی رقم منتظمین اساتذہ سے لینے کے مجاز ہوں گے۔ (7)

          ◼    *حوالہ جات*

1) وَالرِّشْوَةُ مَالٌ يُعْطِيهِ بِشَرْطِ أَنْ يُعِينَهُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب ادب القاضی، ۳/٣٣٠)

2) عن أبي ہریرۃ رضي اﷲ عنہ لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم)

3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبی ﷺ :  الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، ۱/۵۵۰، رقم : ۲۰۲۶)

4) والإسلام یحرم الرشوۃ في أي صورۃ کانت وبأي اسم سمیت فسمیتہا باسم الہدیۃ لا یخرجہا عن دائرۃ الحرام إلی الحلال۔ (الحلال والحرام في الإسلام ۲۷۱، بحوالہ محمودیہ ڈابھیل۱۸/۴۶۳)

5) فأما إذا أعطی لیتوصل بہ إلیٰ حق أو یدفع عن نفسہ ظلمًا؛ فأنہ غیر داخلٍ في ہٰذا الوعید۔ (بذل المجہود : ۱۱؍۲۰۶)

وأما إذا دفع الرشوۃ لیسوي أمرہ عند السلطان حل للدافع ولا یحل للآخذ۔ (إعلاء السنن : ۱۵؍۶۲)

6) وسئل علی رضی اللہ عنہ من التوبۃ فقال یجمعھا ستۃ اشیاء علی الماضی عن الذنوب الندامۃ وللفرائض الاعادۃ ورد المظالم واستحلال الخصوم وان تعزم علی ان لاتعودوان تربی نفسک فی طاعۃ اللہ کماربیتہا فی معصیۃ انتہی۔
آیت ’’یاایھا الذین امنوا توبوا الی اللہ توبۃ نصوحاً‘‘ (سورۃ التحریم : ۸) کے ذیل میں تفسیر بیضاوی ملاحظہ کریں۔

7) أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: الصلح جائز بین المسلمین إلاصلحاً حرم حلالا، أو أحل حراما، والمسلمون علی شروطہم إلا شرطاً حرم حلالا، أو أحل حراما۔ (ترمذي شریف، أبواب الأحکام، باب ماذکر عن رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم في الصلح بین الناس)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 فروری 2018

4 تبصرے:

  1. بہت ہی محقق
    اللہ تعالی آپ کی عمر اور علم میں برکت عطا فرمائے اور قبولیت عامہ عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ بہت خوب

    جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    اللہ تعالٰی قوم کو اس بیماری سے شفا عطا فرمائے اور آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. Masha Allah bhot khoob,

    Is ko hindi ya English me tarjuma kar k School k logo tak pahonchana chahiy. Ya akhbar ne dena chahiy

    جواب دیںحذف کریں