بدھ، 17 اکتوبر، 2018

امامت کا زیادہ حق دار کون

*امامت کا زیادہ حق دار کون؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک جگہ مسجد میں اعلم بالسنّہ امام کے ہوتے ہوئے دو جہری نمازوں کے لئے کسی دوسرے کو امام رکھنا جو صرف حافظ ہو اور کالج میں تعلیم حاصل کرتا ہو اور وہ کالج کے وقت میں کالج کے سوٹ (پینٹ، شرٹ) میں جاتا ہو اور جب شام کو گھر آتا ہو تو اس وقت نماز پڑھانے کے لئے کرتا پائجامہ پہن کر آتا ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور ایسے شخص کی اقتداء صرف اسکے اچھا پڑھنے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔
اسکا مفصّل جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : ایف ۔ این۔ انصاری۔ مالیگاؤں)
-----------------------------------
الجواب وباللہ التوفيق : امام تمام نمازیوں میں ایسا ہونا چاہئے جو سب سے زیادہ مسائل نماز سے واقف، قرآن کریم صحیح پڑھنے والا  اور متبعِ سنت ہو ۔
حدیث شریف میں آتا ہے :
حضرت ابومسعود ؓ راویت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قوم کی امامت وہ آدمی کرے جو " نماز کے احکام و مسائل جاننے کے ساتھ " قرآن مجید سب سے اچھا پڑھتا ہو (یعنی تجوید سے واقف ہو ۔ اور حاضرین میں سب سے اچھا قاری ہو) اگر قرآن مجید اچھا پڑھنے میں سب برابر ہوں ۔ تو وہ آدمی امامت کرے جو (قرأت مسنونہ اچھی طرح پڑھنے کے ساتھ) سنت کا علم سب سے زیادہ رکھتا ہو ۔ (صحیح مسلم)

علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ فَاَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَۃِ میں سنت سے مراد رسول اللہ ﷺ کی احادیث ہیں عہد صحابہ میں جو آدمی احادیث زیادہ جانتا تھا وہ بڑا فقیہ مانا جاتا تھا حضرت امام احمد اور امام ابویوسف کا عمل اسی حدیث پر ہے، یعنی ان حضرات کے نزدیک امامت کے سلسلہ میں قاری عالم پر مقدم ہے ۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام محمد حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ زیادہ علم جاننے والا اور فقیہ امامت کے سلسلے میں بڑے قاری پر مقدم ہے کیونکہ علم قرأت کی ضرورت تو نماز کے صرف ایک ہی رکن میں (یعنی قرأت کے وقت ہوتی ہے، برخلاف اس کے کہ علم کی ضرورت نماز کے تمام ارکان میں پڑتی ہے)
جن احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم پر سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا مقدم ہے اس کا جواب ان حضرات کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو لوگ قاری ہوتے تھے وہی سب سے زیادہ علم والے بھی ہوتے تھے کیونکہ وہ لوگ قرآن کریم مع احکام کے سیکھتے تھے اسی وجہ سے احادیث میں قاری کو عالم پر مقدم رکھا گیا ہے، اور اب ہمارے زمانے میں چونکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اکثر قاری مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں، اس لئے ہم عالم کو قاری پر مقدم رکھتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ان حضرات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں حضرت ابوبکر صدیق سے لوگوں کو نماز پڑھوائی باوجود اس کے وہ قاری نہ تھے بلکہ سب سے زیادہ علم والے تھے ۔حالانکہ اس وقت ان سے زیادہ بڑے بڑے قراء موجود تھے ۔

درج بالا تفصیلات اور فقہی جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ مسئولہ میں اعلم بالسنۃ امام پر ایسے امام کو مقدم رکھنا جو کہ صرف حافظ ہو اور بعض اوقات میں (اگرچہ عذر ہو) غیرمسنون لباس پہنتا ہو خلافِ اولیٰ عمل ہے، ذمہ دارانِ مسجد کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔

تاہم نماز کے ادا ہوجانے میں کوئی کلام نہیں ہے ۔

عن أبي مسعود الأنصاريؓ قال : قال رسول الله ﷺ : یؤم القوم أقرؤہم لکتاب الله ، فإن کانوا فی القراء ۃ سواء ، فأعلمہم بالسنۃ۔(صحیح مسلم ، المساجد ، باب من أحق بالإمامۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۳۶، بیت الأفکار رقم: ۶۷۳)

والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ۔(تنویر الابصار مع الدر،کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ کراچی ۱/۵۵۷، زکریا۲/۲۹۴)
مستفاد : مشکوٰۃ مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 محرم الحرام 1440

1 تبصرہ: