ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

عیدالفطر دوسرے ملک میں منانے والوں کے صدقہ فطر کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید اس سال انشاءاللہ عیدالفطر کے دن مدینہ منورہ میں ہوگا، سوال یہ ہے کہ صدقہ فطر مدینہ منورہ میں دینا مناسب یا اپنے وطن اصلی میں؟ 
براہ کرم جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں) 
---------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عیدالفطر دوسرے ملک میں منانے والے شخص کے صدقہ فطر ادا کرنے کے متعلق دو قول ملتے ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے اُس کی جگہ  کا  اعتبار ہوگا۔
اور دوسرا قول یہ ہے کہ جہاں صدقہ فطر کی ادائیگی کی جارہی ہے اُس جگہ کی قیمت کا  اعتبار ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں فقراء کے فائدہ مند ہونے کے اعتبار سے پہلی روایت اَحوط ہے، جب کہ دوسری روایت میں زید کے لیے سہولت زیادہ ہے، لہٰذا زید خود ہی فیصلہ کرلے کیا کرنا ہے؟ (امداد الاحکام ۳؍۴۱، فتاویٰ رحیمیہ ۳؍۱۱۳، فتاویٰ محمودیہ ۹؍۶۲۳ ڈابھیل، فتاویٰ دار العلوم دیوبند ۶؍۳۱۶-۳۱۷)


 الفطر مکان المؤدي عند محمد وہو الأصح۔ (الدر المختار) بل صرح في العنایۃ والنہایۃ بأنہ ظاہر الروایۃ کما في الشرنبلالیۃ، وہو المذہب کما في البحر، فکان أولیٰ مما في الفتح من تصحیح قولہما باعتبار مکان المؤدي عنہ۔ قال الرحمتي: وقال في المنح: في أخر باب صدقۃ الفطر: الأفضل أن یؤدی عن عبیدہ وأولادہ وحشمۃ حیث ہم عند أبي یوسف وعلیہ الفتویٰ، وعند محمد حیث ہو، تأمل۔ قلت: لکن في التاتارخانیۃ: یؤدی عنہم حیث ہو، وعلیہ الفتویٰ وہو قول محمد، ومثلہ قول أبي حنیفۃ، وہو الصحیح۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۰۷ زکریا، بدائع الصنائع ۲؍۲۰۸ زکریا، الفتاویٰ التاتارخاینۃ ۲؍۴۲۴)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شعبان المعظم 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں