ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

بس وغیرہ میں نماز ادا کرنے کا طریقہ

*بس وغیرہ میں نماز ادا کرنے کا طریقہ*

سوال :

ٰزید ایس ٹی بس سے سفر کر رہا تھا۔ وہ ظہر بعد اپنے شہر سے ایسے وقت میں نکلا کہ اسے یقین تھا کہ عصر کی نماز اسے منزل مقصود پر مل جائے گی۔ درمیان میں بس کی خرابی کے باعث تاخیر ہوئی اور ایسی صورت حال ہیش آئی وقت عصر کی ابتداء سے انتہاء تک بس کہیں رکی ہی نہیں کہ نماز عصر ادا کی جا سکے۔ جب وقت غروب قریب ہوا اور زید کو یقین ہو گیا کہ غروب آفتاب اے قبل منزل تک نہیں پہونچا جا سکتا تو زید نے نماز عصر ادا کرنا چاہا۔ وہ با وضو بھی نہیں تھا اور بس کی سیٹ کے علاوہ نماز پڑھنے کی کوئی جگہ بھی نہیں تھی۔ اور بس مشرق کی سمت میں رواں تھی۔
اس صورت حال میں زید نے اپنی ہی سیٹ پر ضربیں لگا کر تیمم کیا اور سیٹ پر بیٹھے بیٹھے غروب آفتاب سے نماز عصر کی قصر ادا کر لی۔
زید کا یہ عمل کہاں تک درست ہے؟  اور اس صورت حال میں نماز کس طرح ادا کرنا چاہئے؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں زید کا عمل درست ہے، لیکن بعد میں اعادہ واجب ہوگا۔

بس وغیرہ میں مذکورہ صورتِ حال پیش آجائے تو  کھڑے ہوکر قبلہ رُخ پڑھنی چاہیے، اگر گرنے کا خطرہ ہوتو ٹیک لگا سکتے ہیں ۔ اور اگر قبلہ رُخ، قیام یا رکوع وسجدہ نہ ہوسکے تو جس طرح اشارہ وغیرہ سے ممکن ہو پڑھ لی جائے، اور اگرتیمم کرنے کی بھی صورت نہ ہوتو صرف مصلی اور نمازی کی صورت بنالے، پھر جہاں جاکر اتر جائے وہاں پر باضابطہ وضو کے بعدنماز کی قضاء کر لینا بہرحال ضروری ہوگا، اس لئے کہ ان صورتوں میں بھی قیام کا فریضہ ساقط نہ ہوگا، کیونکہ یہ عذر بندوں کی طرف سے آیا ہے، (منجانب اللہ نہیں ہے جیسے بیماری میں اعادہ کی ضرورت نہیں ہوتی) جس کی وجہ سے مسئولہ صورت میں ترکِ قیام کی رخصت نہیں دی جاسکتی۔ ایسا کرلینے سے مذکورہ شخص پر نماز کے قضا کرنے کا گناہ گار نہ ہوگا۔

نوٹ : دین اسلام بہت آسان ہے، اس لیے یہاں بھی کوئی تنگی نہیں ہے، اگر کوئی کھڑے ہوکر آسانی سے نماز پڑھ سکتا ہے تو پڑھ لے، اگر کھڑے ہوکر نماز پڑھ لی جائے تو بعد میں اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اور نہیں پڑھ سکتے تو کوئی حرج نہیں۔ بیٹھ کر نماز پڑھ لیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا عذر بندوں کی وجہ سے آیا ہوا ہے، بیماری نہیں ہے جو منجانب اللہ ہو، لہٰذا بعد میں اس نماز کو دوہرانا واجب ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ جب دوہرانا ہی ہے تو کیوں نہ منزل پر اتر کر ہی نماز پڑھی جائے؟ تو سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی صورت میں اگر نماز قضا ہوگئی تو نماز قضا کرنے کا گناہ ہوگا، لیکن اگر مذکورہ ہدایت کے مطابق نماز پڑھ لی جائے تو پھر نماز قضا کرنے کا گناہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر وضو نہ ہوتو تیمم کرکے نماز پڑھی جائے اور تیمم کرنے کی بھی سہولت نہ (ایسا ہونا بہت مشکل ہے) ہوتو دو چار منٹ مصلی کی صورت بناکر بیٹھ جانا بہتر ہے۔ لیکن اگر وقت باقی ہو اور نماز قضا نہ ہونے کا اندیشہ ہوتو پھر منزل پر اتر کر نماز پڑھی جائے۔

في الدرالمختار : یتشبہ بالمصلین وجوبا، فیرکع ویسجد إن وجد مکانا یابسا، وإلا یومئ قائما، ثم یعید، وتحتہ في الشامیۃ: الصحیح علی ہذا القول أنہ یومئ کیفما کان۔ (درمختار مع الشامي، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، کراچی ۱/ ۲۵۲، زکریا ۱/ ۴۲۳، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، باب التیمم، دارالکتاب دیوبند، ص/ ۱۱۷)

الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء ثم یعید إذا خرج ۔۔۔۔۔ رجل أراد أن یتوضأ فمنعہ إنسان عن أن یتوضأ بوعید، قیل : ینبغي أن یتیمم ویصلي ثم بعد الصلاۃ بعد ما زال عنہ ، لأن ہذا عذر جاء من قبل العباد فلا یسقط الفرض الوضوء عنہ ۔ اہـ ۔ فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللہ تعالی لا تجب الإعادۃ ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ ۔ (۱/۲۴۸، کتاب الطہارۃ ، باب التیمم، بحرالرائق)
مستفاد : احسن الفتاوی ۴/ ۱۸۸، امداد الفتاوی ۱/ ۵۸۶، دارالعلوم ۲/ ۶، محمودیہ قدیم ۱۴/ ۲۲۳، جدید ڈابھیل ۱۷/ ۵۳۲/فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
10 صفر المظفر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں