بدھ، 17 اکتوبر، 2018

حیلۂ تملیک کا ثبوت اور اس کا طریقہ

*حیلۂ تملیک کا ثبوت اور اس کا طریقہ*

سوال :

محترم و مکرم مفتی صاحب!
چند سوالات کا جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔

1) شرعی تملیک کا کیا طریقہ ہے؟

2)  کس وجہ سے تملیک کیا جاتا ہے؟

3) کیا تملیک کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ اطہر میں پایا جاتا ہے؟ کوئی واقعہ پیش آیا ہو تو جواب میں ارسال فرمائیں۔
تمام جوابات مدلل و مفصل عنایت فرمائیں۔
(ألمستفتی :حافظ سفیان احمد ملی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حیلۂ تملیک کا طریقہ یہ ہے کہ کسی فقیر یا غریب طالبِ علم کے قبضہ میں زکوۃ کا پیسہ دیدیا جائے پھر اس کے بعداس سے یہ رقم مانگ لی جائے کہ مدرسہ میں دیدو تم کو ثواب ملے گا۔
حیلۂ تملیک کی بہتر شکل یہ ہے کہ مدرسہ کی سالانہ ضروریات یا ماہانہ ضروریات اور تنخواہوں کا حساب لگالیا جائے اور پھر اس حساب سے فی طالبِ علم کتنا بیٹھتا ہے، اس کا بھی حساب لگاکر ہر طالب علم کو اتنی رقم دیدی جائے اور ہر طالب علم بطور فیس کے مدرسہ میں یہ رقم جمع کردے، اس صورت میں کوئی شکوک وشبہات باقی نہ رہیں گے۔ (مستفاد: ایضاح النوادر۲/۴۸)

2) حیلۂ تملیک مطلقاً ہر جگہ جائز نہیں ہے بلکہ خاص قیودات کے ساتھ سخت ضرورت کے تحت جائز ہوتاہے، مثلاً جس مدرسہ میں قرآن وحدیث تفسیرو فقہ کی تعلیم ہوتی ہے اورمدرسین کی تنخواہیں امداد و عطیات کی رقومات سے پوری نہیں ہوتیں اور بغیرتنخواہ کے مدرس میسر نہیں ہوتے ہیں، تو ان کی تنخواہوں میں دینے کیلئے حیلۂ تملیک کی گنجائش ہے۔

3) ضرورت کے وقت حیلہ اختیار کرنے کی اجازت قرآن وحدیث سے ملتی ہے، جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ : وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بَہٖ وَلَا تَحْنَثْ۔ (سورہ ص، آیت 44)
عطا رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ تمام لوگوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے ایک شاخ لی جس میں ننانوے مزید شاخیں تھیں اور اس شاخ کو ملا کر کل سو لکڑیاں ہوگئیں اور اس شاخ سے اپنی بیوی کو ایک ضرب لگائی، اس کی وجہ یہ تھی کہ شیطان نے بیوی کو اس بات پر تیار کیا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے کہیں کہ وہ فلاں فلاں کلمات اپنی زبان سے کہیں۔ چناچہ بیوی نے ان سے یہ کلمات اپنی زبان سے ادا کرنے کے لئے کہا ، جسے سن کر حضرت ایوب (علیہ السلام) نے بیوی کی پٹائی کی قسم کھالی۔ چناچہ آپ نے اپنی قسم پوری کرنے اور بیوی کی پٹائی میں تخفیف کرنے کی خاطر اس شاخ سے ان کے جسم پر ایک ضرب لگادی۔ (احکام القرآن)

حدیث شریف میں خراب کھجوروں کے بدلہ میں اچھی کھجور لینے سے متعلق تدبیر موجود ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے :
حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا جو بریرہ کو صدقہ میں دیا گیا تھا، آپ نے فرمایا : وہ اس کیلئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔

خلاصہ یہ کہ غرضِ صحیح کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مجبوراً زکوٰۃ وغیرہ کی رقومات میں  تملیک  کا راستہ اپنایا جائے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، لیکن جہاں سخت ضرورت نہ ہو، وہاں  حیلۂ  تملیک کا  استعمال جائز نہیں ہے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم استعمل رجلاً علی خیبر فجاء ہ بتمر جنیب، فقال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أکل تمر خیبر ہٰکذا؟ قال: لا واللّٰہ یا رسول اللّٰہ! إنا لنأخذ الصاع من ہٰذا بالصاعین والصاعین بالثلث، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فلا تفعل! بع الجمع بالدراہم ثم ابتع بالدراہم جنیبًا۔ (صحیح مسلم ۲؍۲۶)

وأخرج البخاري حدیثًا طویلاً طرفہ: فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہو لہا صدقۃ ولنا ہدیۃ۔ (صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ / باب الصدقۃ علی موالي أزواج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۱؍۲۰۲ رقم: ۴۱۷۱ ف: ۴۱۹۳)

والحیلۃ لمن أراد ذٰلک أن یتصدق ینوي الزکاۃ علی فقیر، ثم یأمرہ بعد ذٰلک بالصرف إلی ہٰذہ الوجوہ فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذٰلک الفقیر ثواب ہٰذا الصرف۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۸ رقم: ۴۱۴۱ زکریا)

والحق أنہ کان ذلک لغرض صحیح فیہ رفق للمعذور، ولیس فیہ إبطال لحق الغیر فلا بأس بہ من ذٰلک کما في قولہ تعالی: {وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہٖ وَلَا تَحْنَثْ} وإن کان لغرض فاسد کإسقاط حق الفقراء من الزکاۃ بتملیک مالہ قبل الحول لولدہ أو نحو ذلک فہو حرام أو مکروہ۔ (عمدۃ القاري ۹؍۱۰)

إن کل حیلۃ یحتال بہا الرجل لإبطال حق الغیر أو لإدخال شبہۃ فیہ أو لتمویہ باطل، فہي مکروہۃ، وکل حیلۃ یحتال بہا الرجل لیتخلص بہا عن حرام أو لیتوصل بہا إلی حلال فہي حسنۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ ۶؍۳۹۰دار الفکر بیروت)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی الحجہ 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں