*بیوٹی پارلرز کی شرعی حیثیت*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام و خطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر مسلمان کو اپنی معرفت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے، اسلام انسان کو بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے، ایسی بامقصد زندگی جس کی بنیاد ہر وقت اللہ کی رضا کی طلب و چاہت ہو، آخرت کے بنانے کی فکر ہو اور لہوولعب سے احتراز ہو، یہی زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے، اور جس زندگی کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و لا پرواہی ہو وہ کفار و مشرکین کا شعار ہے ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں : وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ (سورۃ المومنون، آیت : 03)
کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔
لہٰذا شرعی نقطہ نظر سے ہر وہ کام، لائقِ تعریف اور مستحسن ہوگا جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے، اسی کے ساتھ ہر اس کام کی بھی اجازت ہے، جس میں دنیا و آخرت کا یقینی فائدہ ہو، یا کم از کم دنیا وآخرت کا نقصان نہ ہو، چنانچہ اس فکر کو لے کر جب ہم اپنے معاشرے پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی متعدد چیزیں رائج ہیں جو مسلمانوں کو اپنے مقصدِ اصلی سے ہٹائے ہوئے ہیں، جن میں سے بعض نے ہمارے معاشرے میں اپنا مقام بنالیا ہے، اور بعض چیزیں اپنا مقام بنانے کے لیے پَر تول رہی ہیں، میری مراد شہر عزیز میں پھیل رہی بیوٹی پارلرز کی وباء ہے ۔
محترم قارئین ! بلاشبہ زیب وزینت اور بناؤ سنگھار صنفِ نازک کا فطری حق اور اُس کی فطرت کے عین مطابق ہے ۔ اسلام عورت کی اس فطری خواہش کا قطعاً مخالف نہیں ہے، مگر اس زیب وزینت، اوربناؤ سنگھار میں شرعی حدود وقیود سے تجاوز کرنا اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں سے انحراف کرنا ہرگز درست نہیں ہے ۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت اپنے شوہر کے لیے سب کچھ کرسکتی ہے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زیب وزینت اور بناؤ سنگھار میں شریعت کی مقرر کردہ حدود ہیں، اور جن امورکی شریعت میں قطعی طور پر ممانعت ہے، انہیں کرنا کسی صورت میں عورت کے لئے جائز نہیں، خواہ وہ شوہر ہی کیلئے کیوں نہ ہو۔
حدیث شریف میں آتاہے :
’’لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘‘
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے ۔(المعجم الأوسط للطبراني:۳/۲۰۰، رقم الحدیث:۴۳۲۲)
اسی طرح بناؤ سنگھار کے جو امور شرعی حدود اور جائز درجہ میں ہیں ان میں بھی مقصودشوہر کو خوش کرنا ہو، نہ کہ دوسری عورتوں اور نامحرم مردوں کو دکھانا یا ان کے سامنے اترانا ہو ۔ اسی طرح اُن مردوں کو بھی خیرمنانے کی اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے جن کی نگاہوں نے پاکیزگی کھودی ہے، جن کی نظریں فاحشہ عورتوں کو دیکھ دیکھ کر آلودہ ہوچکی ہیں، اور وہ اپنی بیویوں کو بھی فاحشہ عورتوں (اداکاراؤں) کے حلیہ میں دیکھ کر تسکین حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور انہیں غیر شرعی طریقہ سے سنگھار کرنے اور ملبوسات پہننے کا حکم دیتے ہیں، انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ حدیث شریف کے مطابق غیر قوموں کی مشابہت اختیار کرنا بروزِ حشر انہیں کے ساتھ اپنا حشر و انجام کروانا ہے۔
شریعت میں خواتین کے لیے بناؤ سنگار کی گنجائش بہ مقابلہ مردوں کے زیادہ رکھی گئی ہے، تاہم اس میں بھی بہت غلو کو پسند نہیں کیا گیا اور ضروری ہے کہ یہ زیب و زینت بھی شرعی حدود کے اندر ہی رہے، اس سلسلہ میں احادیث مبارکہ میں چند احکام بہت واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں، جنہیں پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
1) اپنے بالوں کے ساتھ انسانی بالوں کا جوڑنا حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث : ۵۵۶۵)
2) بال اکھاڑ کر بھنوؤں کو باریک کرنا بھی جائز نہیں ہے، اس عمل کے کرنے اور کرانے والی دونوں پر اللہ کے رسول کی لعنت ہے۔ (سنن أبي داؤد، حدیث : ۴۱۷۰)
3) دانتوں کے درمیان بہ طور اظہار حسن مصنوعی ریخیں نکالنے اور کشادگی پیدا کرنے والی عورتوں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے ۔ غالباً موجودہ زمانہ میں یہ فیشن نہ ہو لیکن عرب میں اُس وقت یہ چیز عورتوں میں مقبول تھی۔ (صحیح مسلم، حدیث : ۵۵۷۳)
4) عرب میں ایک قدیم فیشن ’’وشم‘‘ کا تھا ’’وشم‘‘سے مراد یہ ہے کہ جلد میں سوئی کے ذریعہ سوراخ کیے جائیں اور انہیں سرمہ یا کسی اور چیز سے اس طرح بھر دیا جائے کہ اس کا رنگ اور نقش باقی رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے اور کرانے والی عورتوں پربھی لعنت فرمائی ہے ۔خیال ہوتا ہے کہ چہرہ پر مصنوعی تل بنانا اسی حکم میں داخل ہونا چاہئے۔ (صحیح بخاری، حدیث : ۵۹۴۷)
5) خواتین کے لیے بال ان کی زینت کا سامان اور ان کی شناخت اور پہچان ہے، اس لیے عورتوں کے بال کاٹنے سے مردوں کی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے، اس لیے بالغ لڑکیوں اور خواتین کے بال کے معاملہ میں ایسی تراش و خراش جائز نہیں ہے ۔ (صحیح بخاری، حدیث : ۵۸۸۵)
6) حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو عورت خوشبو لگاکر مجلس سے گزرے وہ ایسی اور ویسی ہے ۔ عورتوں کو تیز خوشبو لگانے سے منع فرمایا گیا ہے، خواتین کو ہلکی خوشبواستعمال کرنی چاہئے اور وہ بھی ان لوگوں کے درمیان جن سے پردہ کے احکام نہیں ہیں ۔ (جامع ترمذی، حدیث : ۲۷۸۶/۲۷۸۷، مستفاد کتاب الفتاوی)
7) عورتوں کا اپنے بالوں کو پِن وغیرہ سے گرہ لگاکر سر کے اوپر اس طرح ترتیب دینا جس سے سَر، اُونٹ کے کوہان کی طرح اونچا معلوم ہو،جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں ایسی عورتوں کے بارے میں وعید آئی ہے کہ اس طرح کے فیشن اختیار کرنے والی عورتیں نہ جنت میں داخل ہوسکیں گی، نہ جنت کی خوشبو انہیں حاصل ہوگی۔ (صحیح مسلم، حدیث : ۵۵۴۷)
8) چہرے کی رنگت کو پاؤڈر وغیرہ سے اس طرح تبدیل کردینا، اور چہرے کی جھریوں کو عارضی طور پر کسی حکمت عملی سے دور کردینا کہ پہلی مرتبہ دیکھنے والا دھوکہ کھا جائے، شوہر کے علاوہ کسی اور کو اس سے مرعوب اور متاثر کرنا جائز نہیں ہے، ایسا کرنا دھوکہ دینے میں شمار ہوگا، جس پر حدیث شریف میں وعید وارد ہوئی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث :۱۰۱)
اسی طرح لپ اسٹک، نیل پالش اور میک اپ میں استعمال ہونے والے دیگر لوازمات اعضاء پر لگانے کے بعد پَرَت بن جاتے ہیں، ان کے لگے ہونے سے وضو اورغسل درست نہیں ہوتا، لہٰذا اگر اس کا استعمال کیا جائے تو نماز سے پہلے اس کا چھڑا لینا ضروری ہے، ورنہ وضو نہ ہونے کی وجہ سے نماز بھی نہیں ہوگی۔
یہ تھیں چند شرعی قباحتیں جو موجودہ دور کے بیوٹی پارلرز میں پائی جاتی ہیں، اسی کے ساتھ اس میں مزید اور بھی خرابیاں ہیں، اگرچہ فی الوقت یہ چیز ہمارے شہر میں نہ ہو لیکن جن شہروں میں بیوٹی پارلر کا کاروبار زوروں پر ہے وہاں یہ "بیوٹی پارلرز" فحاشی کے خفیہ اَڈّے بھی بنے ہوئے ہیں۔
شہرِعزیز میں آج کل اس فن کی کلاسیں بھی لی جارہی ہیں، وہ بھی مسلم علاقوں میں، معتبر ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق اس کلاس کی فیس ہزاروں میں ہوتی ہے، پھر جب خواتین یہ کورس مکمل کرلیتی ہیں تو انہیں اپنے خرچ سے (جو ہزاروں میں ہوتا ہے) ایک ماڈل تیار کرنا ہوتا ہے، اور وہ ماڈل تیار کرکے ججس کے سامنے پیش کرتے ہیں، اس کے بعد انہیں نمبرات اور سرٹیفکیٹ ملتے ہیں ۔ اور غالباً اسی کے لیے کچھ دن پہلے شہر میں بے حیائی اور غیر شرعی افعال سے پُر ایک پروگرام منعقد ہوا تھا۔
چنانچہ جو خواتین اس کورس کو سیکھ رہی ہیں جس میں مذکورہ بالا قباحتیں موجود ہیں تو ان کا سیکھنا اور سکھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے، اور اس کا ترک کرنا ان پر لازم ہے۔
اور اگر مذکورہ بالا غیر شرعی امور سے پرہیز کرتے ہوئے، پردہ کی مکمل رعایت کے ساتھ یہ کام کیا جائے تو ایک حد تک اس کی گنجائش ہے، لیکن بہتر یہ بھی نہیں ہے، کیونکہ اس سے اسراف اور تزئین و آرائش میں غلو کا مزاج پیدا ہوتا ہے، جو بہرحال اسلام کے اصل مزاج اور روح کے خلاف ہے، لہٰذا ہماری مسلمان بہنوں سے مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ بیوٹی پارلر قائم کرنے، اس میں کام کرنے اور اس کی خدمات سے استفادہ کرنے سے اجتناب کریں کہ آپ کا اصل زیور حیاء ہے اور اس سے بڑھ کر آپ کے لیے زیبائش و آرائش اور جذب و کشش کا کوئی اور سامان نہیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے، منکرات، فضولیات، لغویات سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
ایک فکر انگیز تحریر۔ جزاک اللہ خیراً واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب تحریر 💐💐
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جزاک اللہ مفتی صاحب بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا
کتاب الفتاوی میں بھی اسی طرح کا جواب حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم نے تحریر فرمایا ہے۔
جزاکما اللہ