بدھ، 17 اکتوبر، 2018

تنابز بِالاَلقاب کا سیلاب خدارا اس کو روک لیجئے

*تنابز بِالاَلقاب کا سیلاب*
 
            *خدارا اس کو روک لیجئے*

✍ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام! سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں اس میں بے شمار خرابیاں بھی ہیں، جن میں سے ایک خرابی ہر ہما شما کا قلم تھام لینا بھی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں، مطلب جسے جو سمجھ میں آرہا ہے لکھ رہا ہے، کوئی بغیر علم کے دینی معاملات میں رائے زنی کررہا ہے، تو کوئی بےسمجھ آدمی منجھے ہوئے مفکرین کی رائے سے بلا دلیل اختلاف کررہا ہے، کوئی افواہوں کا بازار گرم کررہا ہے، اور کوئی اپنی تخریبی ذہنیت سے دو جماعتوں خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی میں مزید نفرت اور دوریاں پیدا کررہا ہے ۔

محترم قارئین! شہرِعزیز مالیگاؤں کی سیاست پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس میں ہمیں متعدد خرابیاں نظر آتی ہیں، جن میں ایک برائی سوشل میڈیا کے اس دور میں مزید نکھر گئی ہے، جس نے مضبوطی سے اپنا قدم جمادیا ہے، جس میں عوام اور بعض خواص بھی مبتلا ہوگئے ہیں، میری مراد تنابز بالالقاب (برے القاب سے ایک دوسرے کو پکارنا ہے) ہے ۔

سوشل میڈیا کی ایجاد سے پہلے یہ برائی صرف سیاسی جلسہ جلوس تک محدود ہوا کرتی تھی، پرنٹ میڈیا (اخبارات) عام طور پر اس بیماری سے پاک تھے، اس لئے کہ اس میں قانونی دشواریوں کا خطرہ بھی ہوتا تھا اور اخبار کے معیار کا بھی خیال کیا جاتا تھا ۔ لیکن سوشل میڈیا میں جب کہ ہر کوئی آزاد ہے، یہاں تک کہ اپنی پہچان چُھپاکربھی لکھا جاسکتا ہے، تو ایک طبقہ نے دین و شریعت کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا ہے، اور اپنے مخالفین کو ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے کہ ایک مہذب شخص کے لیے اس کا گمان کرنا بھی ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ برائی شہر میں صرف ایک سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں ہورہی ہے، بلکہ شہر کی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور ہم نوا افراد اس میں برابر کے شریک ہیں ۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں؟

کیا انھیں قرآنی حکم کا علم نہیں ہے؟

اگر مسلمان ہیں اور انھیں قرآنی حکم کا علم نہیں ہے تو ابھی جان لیں کہ اس عمل کی ممانعت قرآنِ کریم میں وارد ہوئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا  تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔ (سورہ حجرات : آیت 11)
ترجمہ : اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں ۔

تفسیر : کسی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا جس سے وہ ناراض ہوتا ہو، جیسے کسی کو لنگڑا لولا یا اندھا کانا کہہ کر پکارنا یا اس لفظ سے اس کا ذکر کرنا اسی طرح جو نام کسی شخص کی تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہو اس نام سے اس کو پکارنا، حضرت ابوجبیرہ انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے اور ان میں سے بعض نام ایسے تھے جو لوگوں نے اس کو عار دلانے اور تحقیر و توہین کے لئے مشہور کردیئے تھے۔ آپ کو یہ معلوم نہ تھا بعض اوقات وہی برا نام لے کر آپ اس کو خطاب کرتے تو صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت میں  تنابزو  بالالقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہوگیا ہو اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا، مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ جس نے چوری، زنا، شراب سے توبہ کرلی ہو اس کو اس پچھلے عمل سے عار دلانا اور تحقیر کرنا حرام ہے۔ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔ (قرطبی/ معارف القرآن)

ذکر کردہ آیتِ کریمہ اور اس کی تفسير سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج کل سیاست میں جو ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارا جارہا ہے، روزآنہ نت نئے القاب وضع کئے جارہے ہیں، اور باقاعدہ پوری تحریر میں صرف یہی نازیبا القاب لکھ کر شئیر کیا جارہا ہے، شخصیت پر لطیفے بنائے جارہے ہیں، یہ سب ناجائز اور حرام اور سنگین گناہ ہیں، لہٰذا جو لوگ اس طرح کی حرکتوں میں مبتلا ہیں ان پر ضروری ہے کہ وہ اس کو بالکل چھوڑ دیں، اور ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کریں، اور خدارا تنابز بالالقاب کے اس سیلاب کو روک دیں ۔

اسی طرح اس فعلِ قبیح کو انجام دینے والے افراد کے قائدین اور لیڈران کو بھی بلاشبہ ان باتوں کا علم ہے۔

لیکن کیا وہ انھوں نے کبھی اپنے حواریوں کو جمع کرکے اس فعل سے باز رہنے کو کہا ہے؟

اگر نہیں کہا ہے، تو ضرور انھیں اس بات کی تنبیہ کریں، اور یہ اعلان کریں کہ جو بھی مخالف جماعت کے سربراہان کے متعلق نازیبا کلمات کہے گا، ہمارا اور ہماری جماعت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ورنہ ان کی خاموشی اس بات کی طرف مشیر ہوگی کہ وہ خود بھی یہی چاہتے ہیں، اور اگر ایسا ہوا تو ان سب کا وبال اُن کے سَر ہوگا، اور وہ بھی ان کے گناہ کے شریک ہوں گے ۔ اور یہ عذر بالکل بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوگا کہ پہلے اس نے کہا تھا پھر ہم نے کہا، اگر مخالف جماعت کے لوگوں نے پہل کی ہے تب بھی آپ کو شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے کہ آپ ان کے متعلق نازیبا کلمات کا استعمال کریں چہ جائیکہ آپ اس سے دو جوتا آگے بڑھ جائیں ۔

اسی طرح واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن حضرات بھی اس کا خیال رکھیں کہ ان کے گروپ میں ایسی کوئی تحریر نہ آئے جس میں کسی بھی شخص کے متعلق نازیبا کلمات کا استعمال کیا گیا ہو، ورنہ یہ بھی ان کے گناہ میں معاون ہونے کے گناہ گار ہوں گے ۔

امید ہے کہ اہلیانِ شہر اس اہم مسئلہ پر توجہ فرمائیں گے اور تنابز بالالقاب کے اس سیلاب کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو دین و شریعت کی مکمل طور پر پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں