سوال :
محترم مفتی صاحب ! عام طور سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام لوگ امام، کا خطاب لگاکر لیتے ہیں، لیکن پڑوس ملک کے ایک عالم مفتی عبدالستار صاحب نے اپنی کتاب، شہادت حسین، میں یہ لکھا ہے کہ امام حسین کہنا اہل تشیع سے مشابہت ہونے کی وجہ ممنوع ہے، جبکہ اکثر واعظین اس میں مبتلا ہیں، دوسری بات یہ ہیکہ اس کتاب میں اکابر علماء دیوبند کے افادات کو جمع کیا گیا ہے، اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ حضرت حسن، حسین رضی اللہ عنہ کو امام کہنا صحیح ہے یا نہیں؟ اسی طرح جمعہ وعیدین کے خطبہ ثانیہ میں "وعلی الامامین " کہنے کا حکم کیا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، امام جامع مسجد پمپر کھیڑ، چالیسگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرات حسنین (حضرت حسن و حسین) رضی اللہ عنھما کو امام کہنا درست نہیں ہے، یہ شیعوں کا طریقہ ہے۔ وہ امام بمعنی معصوم بولتے ہیں، اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک صرف انبیاء معصوم ہوتے ہیں، کسی صحابی یا اولیاء اللہ کو معصوم ماننا قطعاً ناجائز ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
شیعوں کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لے کر ۱۱ ویں امام تک جتنے بزرگ ہیں، وہ سنیوں کے بھی بزرگ ہیں اور اہل بیت کے خاندان سے ہیں، شیعہ حضرات ان بزرگوں کو امام، خاص عقیدوں کے ساتھ مانتے ہیں ۔ مثلاً انھیں وہ انبیاء کی طرح معصوم مانتے ہیں، ان کی اطاعت کرنا فرض مانتے ہیں، جو شخص ان کی اطاعت نہ کرے اسے مومن نہیں گردانتے ہیں، ان اماموں کے پاس اللہ کی طرف سے نئی کتاب اور نئی شریعت دی گئی ہے، انہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا ملا ہے، جس حلال کو چاہیں حرام کردیں اور جس حرام کو چاہیں حلال بنائیں۔ اس لیے ہمارے لئے امام علی، امام حسن اور امام حسین کہنا جائز نہیں۔ (رقم الفتوی : 11341)
صاحب احسن الفتاوی مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
امام کا لفظ اہلِ حق کے یہاں بھی استعمال ہوتا ہے، اور شیعوں کے یہاں بھی، اہلِ حق کے ہاں اس کے معنی ’’پیشوا، رہبر،اور مقتَدیٰ‘‘ کے ہیں، اور اہلِ تشیُّع کے یہاں ’’امام‘‘ عالم الغیب اور معصوم ہوتے ہیں، یعنی اُن کے یہاں ’’امام‘‘ کا درجہ نبیوں سے بھی بڑا ہے، اہلِ حق یعنی اہلِ سنت والجماعت جب لفظ ’’امام‘‘ استعمال کرتے ہیں، تو ظاہری معنی ’’پیشوا، رہبر، مقتَدیٰ‘‘ ہی مراد ہوتے ہیں، اس اعتبار سے تمام انبیاء، صحابہ، تابعین، اولیاء اللہ اور علماء امام ہیں، اس لیے امام ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، امام عمر فاروق رضی اللہ عنہ، امام عثمان رضی اللہ عنہ، امام حضرت علی رضی اللہ عنہ، امام ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کہنا چاہیے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ لوگ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ’’امام‘‘ نہیں کہتے، بلکہ صرف حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو ہی ’’امام‘‘ کہتے ہیں، معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں یہ اثر کہیں غیر سے آیا ہے، یہ تشیُّع (شیعیت) کا اثر ہے، جو مسلمانوں میں سرایت کرگیا ہے، ہاں ! البتہ اگر اہلِ حق میں سے کسی نے ان کو امام کہا ہے، تو وہ صحیح معنی میں کہا ہے، مگر اِس سے مُغالَطہ ضرور ہوتا ہے، اس لیے اِس سے احتراز ضروری ہے۔ (احسن الفتاوی : ۱/۳۹۰)
سوال نامہ میں مذکور مفتی صاحب کی کتاب میں لکھا ہوا مسئلہ بالکل درست ہے۔ لہٰذا واعظین کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے اس لیے کہ عوام الناس کی اکثریت تقریر کے ذریعے ہی دین سیکھتے ہیں، اور اسی پر بھروسہ کرکے عمل کرنا شروع کردیتے ہیں، جبکہ تحریر صرف مطالعہ کا ذوق رکھنے والے افراد کے لیے مفید ہوتی ہے۔ اسی طرح جمعہ وعیدین کا خطبہ دینے والے خطباء کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ خطبہ میں "وعلی الامامین" نہ کہیں۔
الأئمۃ لغۃً : من یُقتدَی بہم من رئیس أو غیرہ، مفردہ ؛ إمام ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یُطلق علی الأنبیاء علیہم السلام أنہم ’’ أئمۃ ‘‘ من حیث یجب علی الخَلق اتباعہم ، قال اللّٰہ تعالی عقِب ذکرِ بعض الأنبیاء {وجعلناہم أئمۃ یہدون بأمرنا} کما یُطلق علی الخلفاء ’’ أئمۃ ‘‘ ، لأنہم رُتّبوا في المحل الذي یجب علی الناس اتباعہم وقبول قولہم وأحکامہم ۔ اہـ ۔ (۱/۷۵ ، أئمۃ ، الإطلاقات المختلفۃ لہذا المصطلح، الموسوعۃ الفقہیۃ)
الإعانۃ علی المحظور محظور۔ (جمہـرۃ القـــواعد الفقہیۃ، ۲/۶۴۴)
ان الوسیلۃ أو الذریعۃ تکون محرمۃ إذا کان المقصد محرما۔ (المقاصد الشریعۃ، ص/۴۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 محرم الحرام 1440
مگر مفتی صاحب ہم نے تو بچپن سے علماء کو خطبوں میں وعلی الامامین کہتے سنا ہے؟
جواب دیںحذف کریںبہت کچھ غلط سلط سنتے آئے ہیں، یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
حذف کریںمفتی صاحب جو ہمارے ۴ امام ہیں انکا کیا حکم ہے
جواب دیںحذف کریںجواب میں لکھا ہوا ہے۔ انہیں کوئی معصوم عن الخطاء سمجھ کر امام نہیں کہتا۔ لہٰذا اس میں کسی کی مشابہت نہیں ہے۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم