منگل، 8 ستمبر، 2020

انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے ہوم لون لینا

سوال :

مکرمی جناب مفتی صاحب! امید کہ آپ بخیر وعافیت ہوں گے۔ ایک مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ میں ایک ٹیچر ہوں، سرکاری طور پر ملازمین کو ہوم لون ملتا ہے، جو سود کے ساتھ قسط وار اپنی تنخواہ سے واپس کرنا ہوتا ہے، جس کا کچھ حصہ تو معاف ہوجاتا ہے اور باقی کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس سے ہمیں ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس قرض سے مکان کا انتظام ہوجاتا ہے جو بغیر قرض کے ممکن نہیں ہوتا، دوسرے اس قرض کے سبب انکم ٹیکس سے ایک مدت تک نجات رہتی ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں اس کی گنجائش مل سکتی ہے یا نہیں؟ ازراہ کرم جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : محمد ذاکر خان، ضلع جلگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عام حالات میں سودی قرض لینا جائز نہیں ہے۔ قرآن کریم میں اس کی ممانعت اور احادیث میں اسے ملعون عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح انکم ٹیکس کی بھی شرعاً کوئی اصل نہیں ہے بلکہ یہ ایک جبری اور ظالمانہ ٹیکس ہے جو بغیر کسی عوض کے لیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس ظلم سے بچنے کے لئے اگر ہوم لون لینا پڑے تو اس کی گنجائش ہے، اس صورت میں یہ سودی قرض دفع ظلم کے لیے مانا جائے گا نہ کہ گھر تعمیر کرنے کے لیے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
سود پر مبنی لون لینا شرعا ناجائز اور حرام ہے، قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں، ہاں شدید ضرورت ہو تو بہ قدر ضرورت گنجائش ہے، انکم ٹیکس چونکہ شرعی اعتبار سے ایک ناروا ٹیکس ہے؛ اس لئے اگر کسی کی رقم انکم ٹیکس میں کٹ جاتی ہو یا یہ خطرہ ہو کہ اگر اپنا پیسہ ظاہر کرے گا تو انکم ٹیکس کے محکمہ کی زد میں آجائے گا، البتہ لون لینے کی صورت میں اس خطرے سے بچاؤ ممکن ہوتو پھر اس مجبوری میں لون لینے کی گنجائش ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ غور فرمالیں، جس پریشانی کا آپ نے سوال میں اظہار کیا ہے، اگر اس سے بچنے کی کوئی اور مباح تدبیر نہ ہو تو مجبوراً آپ کے لیے بہ قدر ضرورت لون لینے کی گنجائش ہوگی۔ (رقم الفتوی :175355)

معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے ہوم لون لینے کی گنجائش موجود ہے۔ تاہم بہتر یہی ہے اس سے بھی احتراز کرلیا جائے۔

قال اللہ تعالیٰ : قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا۔ (سورۃ البقرة : 275)

أما إذا أعطی لیتوصل بہ إلیٰ حق أو یدفع عن نفسہ ظلمًا؛ فأنہ غیر داخلٍ في ہٰذا الوعید۔ (بذل المجہود ۱۱؍۲۰۶)

وأما إذا دفع الرشوۃ لیسوي أمرہ عند السلطان حل للدافع ولا یحل للآخذ۔ (إعلاء السنن ۱۵؍۶۲)

دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ ولاستخراج حق لہ لیس برشوة، یعنی : في حق الدافع اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، ۹/ ۶۰۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 محرم الحرام 1442

2 تبصرے: