اتوار، 27 ستمبر، 2020

ٹیلروں کا بچے ہوئے کپڑے اور دیگر کاریگروں کا مشین وغیرہ کی درستگی کے وقت نکلنے والے سامان رکھ لینا

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے وہ یہ کہ ہمارے یہاں اکثر ٹیلر لوگ کپڑا کٹنگ کرنے کے بعد جو کپڑے کا ٹکڑا بچ جاتا ہے اسکو واپس نہیں کرتے اسی طرح الیکٹریشن لوگ موٹر وائنڈنگ کرتے ہیں  اس میں جو تانبے کا تار اور جونا کینسل سامان نکلتا ہے اسکو بھی واپس نہیں کرتے، اور انکا یہ عمل عرفًا لوگوں پر گراں بھی نہیں گذرتا اور لوگ اس کے متعلق پوچھ گچھ بھی نہیں کرتے، اسی طرح مختلف طبقات کے تاجر وکاریگر (ورکشاپ کے ویلڈر، ٹووھیلر، فوروھیلر کے میکانک وغیرہ) کیا انکا یہ عمل درست ہے؟ اگر نہیں ہے تو جواز کی شکل وصورت کیا ہوگی؟
(المستفتی : حافظ معین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ٹیلر حضرات کے یہاں چھوڑے ہوئے کپڑے عموماً اتنے معمولی ہوتے ہیں جس سے کوئی چیز نہیں بن سکتی ہے، جسے چھوڑتے ہوئے گراہک کو بار بھی محسوس نہ ہوتا، ایسے کپڑوں کو ہمارے یہاں کترن اور چِندی کہتے ہیں، لہٰذا انہیں رکھ لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر کپڑے اتنے بڑے ہوں جس سے کوئی لباس بن سکتا ہو اور عُرف میں گراہک اسے چھوڑتے نہیں ہیں ایسے کپڑوں کا واپس کردینا ضروری ہے۔ ہاں اگر گراہک اپنی خوشی سے ایسے کپڑے بھی واپس کردیں تو پھر ایسے کپڑوں کا رکھ لینا بھی جائز ہے۔

موٹر وائنڈنگ کے تار، الیکٹرانک اشیاء نیز ٹوویلر اور فور وہیلر کی درستگی کے وقت نکلنے والے سامان بھی عموماً ناکارہ ہوتے ہیں، جو قیمت میں بھی بہت کم ہوتے ہیں، جن کے چھوڑنے میں گراہک پر بھی کوئی بار نہیں ہوتا، لہٰذا ایسے سامان کا کاریگروں کا رکھ لینا جائز ہے، لیکن اگر گراہک ان چیزوں کا مطالبہ کرلیں تو ان کا واپس کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ یہ اصل ان کی ہی چیز ہے۔ نیز ایسے سامان کا واپس کردینا یا ان کے رکھ لینے کی اجازت لینا ضروری ہے جو قیمتی ہوں۔ جن کی اہمیت کاریگر خود سمجھ سکتے ہیں۔

لایجوز التصرف في مال غیرہ  بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (شامي : ٦/۳۰۰)

لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي : ۶/۱۰۶)

العادة محكمة۔ (شرح المجلة : ٤٤/١)

المعروف بين التجار المشروط بينهم۔ التعيين بالمعروف كالتعيبن بالنص۔ (شرح المجلة : ٥٠/١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 صفر المظفر 1442

3 تبصرے: