جمعرات، 2 جون، 2022

بہو کی آمد سے اچھا یا برا شگون لینا

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ شادی کے بعد اگر آنے والی لڑکی کا پیر اچھا ہوتو شوہر کو روزی ملتی ہے اور اگر شوہر کی روزی میں خسارہ ہوگیا ہوتو کہا جاتا ہے کہ آنے والی لڑکی کا پیر اچھا نہیں ہے جب کہ لڑکی نیک ہو تب بھی۔ شریعت کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نیک فال لینا محمود و مستحسن بلکہ مستحب ہے۔ جبکہ تطیر یعنی بری فال لینا مذموم و ممنوع ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کثرت کے ساتھ اور خاص طور پر لوگوں کے ناموں اور جگہوں کے ذریعہ اچھی فال لیتے تھے۔ ان دونوں میں فرق و امتیاز اس بنا پر ہے کہ نیک فال میں اول تو اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اچھائی اور بھلائی کی امید آوری ہوتی ہے۔ نیز دل میں اچھائی اور بھلائی ہی کا خیال آتا ہے اور یہ امید آوری اور یہ خیال ہر حالت میں بندے کے لئے بہتر ہے گو اس کی مراد پوری نہ ہو۔ اور بد فالی اس لئے ممنوع و مذموم ہے کہ اس میں خواہ مخواہ رنج اور تردد پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے قطع امید ہوتی ہے اور نا امیدی و نامرادی کا احساس اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں شرعاً مذموم و ممنوع بھی ہیں اور عقل و دانش کے منافی بھی ہیں جب کہ بہر صورت ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے۔ (مستفاد : مشکوۃ مترجم)

لہٰذا بہو کی آمد کے بعد اگر روزی میں فراخی ہوتو یہ سمجھنا اور نیک فالی لینا درست ہے کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے روزی میں وسعت عطا فرمائی ہے۔ البتہ اگر خدانخواستہ دولہن کی آمد کے بعد کاروباری حالات درست نہ ہوں اور روزی میں تنگی ہوجائے تو اس کا سبب دولہن کو سمجھنا بدفالی، بدعقیدگی اور گناہ ہے۔ جس سے بچنا ضروری ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا طِيَرَةَ ، وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ. قَالَ : وَمَا الْفَأْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : الْكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٧٥٥)

قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

وَكَانَ الْقَفَّال يَقُول بَعْدَهَا : أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الأُْمُورَ كُلَّهَا بِيَدِ اللَّهِ، يَقْضِي فِيهَا مَا يَشَاءُ، وَيَحْكُمُ مَا يُرِيدُ، لاَ مُؤَخِّرَ لِمَا قَدَّمَ وَلاَ مُقَدِّمَ لِمَا أَخَّرَ۔ (الموسوعۃ الفھیۃ : ١٩/٣٩٨)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۵۳۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ذی القعدہ 1443

1 تبصرہ: