سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ عورتوں کا الیکشن میں کھڑا ہونا کیسا ہے؟ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ وہ قوم گمراہ ہوجاتی ہے جو عورت کی حکمرانی میں ہو، اس کی وضاحت بھی فرما دیں۔
(المستفتی : محمد صادق، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس حدیث شریف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ حدیث کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے اور مکمل درج ذیل ہے :
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو سلطنت کی حکمرانی دے دی ہے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو۔
لیکن فقہاء نے لکھا ہے کہ یہاں حکمرانی سے مراد امارة مطلقہ اور سیادة عظمیٰ ہے جو کسی کے تابع نہ ہو یعنی عورت کی ایسی سربراہی جس میں عورت واقعی خود مختار اور مطلق العنان ہو کسی کے تابع نہ ہو، درست نہیں ہے۔ البتہ اگر حکمرانی خود مختار مطلق العنان نہ ہو بلکہ کسی کے تابع اور وقتی ہوتو اس کی گنجائش ہے۔ حکیم الامت علامہ اشرف تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اپنے مجموعہ فتاوی "امداد الفتاوی "میں مسئلہ ھذا کی مفصل بحث کے بعد تقریباً یہی بات خلاصہ کے طور پر لکھی ہے۔
مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں :
ہر مسلمان عورت پر پردہ کی پابندی ضروری ہے، اِسی طرح اَجنبی مردوں سے اجتناب بھی لازم ہے، اگر اِن شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے کوئی عورت پنچایت وغیرہ کی ممبر بنتی ہے، تو اُس کی شرعاً گنجائش ہے اور اگر اِن شرعی حدود کی رعایت نہ رکھی جائے تو ظاہر ہے کہ گناہ ہوگا؛ اِس لئے کسی بھی باپردہ مسلم خاتون کو اِس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے؛ البتہ جو خواتین پہلے ہی سے عام زندگی میں شریعت کے احکامات کا خیال نہیں رکھتیں اور بلا حجاب بے تکلف گھر سے باہر آمد ورفت کرتی رہتی ہیں، وہ اگر اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے آگے آئیں تو بہتر ہوگا؛ لیکن وہ ترکِ حجاب کی وجہ سے گنہگار بہر حال رہیں گی۔ (کتاب النوازل : ١٧/٧٣)
معلوم ہوا کہ ہندوستان جو ایک جمہوری ملک ہے، یہاں حکومت خود مختار اور مطلق العنان نہیں ہوتی بلکہ پارلیمانی طرز کی ہوتی ہے، لہٰذا یہاں عورتوں کا الیکشن میں کھڑے ہونا شرعاً جائز ہے، البتہ عورتوں کے لیے پردہ ہر وقت ضروری ہے، اگر یہ خاتون اس کی رعایت نہیں کرے گی تو گناہ گار ہوگی۔
قال اللّٰہ تعالیٰ : قُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ۔ (النور، جزء آیت : ۳۱)
قال النووي: وسببہ الصیانۃ والإحتراز من مقارنۃ النساء للرجال من غیر حاجۃ۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۱؍۲۹۰)
قال اللّٰہ تعالیٰ : وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلیٰ۔ (الاحزاب، جزء آیت : ۳۳)
عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال: المرأۃ عورۃ فإذا خرجت استشرفہا الشیطان۔ (سنن الترمذي آخر أبواب النکاح ۱؍۲۲۲ رقم : ۱۱۷۳)
وزاد فیہ: وأقرب ما تکون من ربہا وہيفي قعر بیتہا۔ (صحیح ابن خزیمۃ ۲؍۸۱۴ رقم : ۱۹۸۶)
المرأۃ إذا جعلت قاضیا فقضاء ہا جائز في ما تجوز شہادتہا فیہ۔ (شرح آداب القاضي للخصاف : ۳۱۷)
المرأۃ فیما تصلح شاہدۃ تصلح قاضیۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۱؍۳۳ رقم: ۱۵۳۹۴ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الاول 1446
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں