بدھ، 27 جنوری، 2021

مہر معاف کروانے کی رسم

سوال :

مفتی صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
سوال یہ تھا کے مہر معاف کروانا یا شوہر کے جنازے کے پاس اسکی بیوی کو لا کر اس سے کہنا کے تو اپنے شوہر کی مہر معاف کردے
اسکی حقیقت کیا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مدثر انجم، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہر بیوی کا حق ہے جو شوہر کے ذمہ قرض ہوتا ہے، لہٰذا اس کی ادائیگی جتنی جلدی ہو کردینا چاہیے، لیکن اگر کسی نے زندگی میں مہر ادا نہیں کیا تو اس کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ سے پہلے یہ قرض یعنی مہر ادا کیا جائے گا اس کے بعد ترکہ وارثین میں تقسیم ہوگا۔ یا پھر اولاد میں سے کوئی والد کی طرف سے مہر ادا کردے تو مہر ادا ہوجائے گا اور شوہر کے ذمہ سے قرض اُتر جائے گا۔

بیوی شوہر کی زندگی میں یا انتقال کے بعد اگر خوش دلی سے بغیر کسی جبر اور دباوٴ کے مہر معاف کردے تو مہر معاف ہوجاتا ہے، لیکن شوہر کے انتقال کے بعد جنازہ کے پاس بیوی کو لاکر مہر معاف کروانے کی رسم میں جبر ودباوٴ یا شرما حضوری کا بڑا دخل ہوتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اگر واقعتاً بیوی نے برضا ورغبت مہر معاف نہیں کیا تو مہر معاف نہیں ہوگی۔ لہٰذا اس قبیح رسم سے اجتناب ضروری ہے۔

وَإِنْ حَطَّتْ عَنْ مَهْرِهَا صَحَّ الْحَطُّ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ. وَلَا بُدَّ فِي صِحَّةِ حَطِّهَا مِنْ الرِّضَا حَتَّى لَوْ كَانَتْ مُكْرَهَةً لَمْ يَصِحَّ وَمِنْ أَنْ تَكُونَ مَرِيضَةً مَرَضَ الْمَوْتِ هَكَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب النکاح، الباب السابع في المہر، الفصل السابع في الزیادۃ في المہر، ١/٣١٣)

عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال : لا یحل مال امرئٍ مسلم إلا بطیب نفس منہ۔ (شعب الإیمان، رقم :۵۴۹۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الآخر 1442

2 تبصرے: