منگل، 12 جنوری، 2021

میت کو غسل، کفن دینے اور تدفین کا طریقہ

سوال :

محترم مفتی صاحب ! براہ کرم میت کو غسل اور کفن دینے نیز تدفین کا مسنون طریقہ مفصل مدلل بیان فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے، آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔ آمین
(المستفتی : محمد نعمان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میت کو غسل دینے میں کوئی فرق نہیں ہے، خواہ میت چھوٹی ہو یا بڑی۔ سب سے پہلے جس تختہ پر غسل دیا جائے پہلے اس کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے لیں، اس پر  میت کو قبلہ رخ کرکے یا جیسے بھی آسان ہو لٹایا جائے، اس کے بعد  میت کے بدن کے کپڑے چاک کرلیں اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر بدن کے کپڑے تارلیں، یہ تہبند موٹے کپڑے  کا  ناف سے لے کر پنڈلی تک ہونا چاہیے تاکہ بھیگنے کے بعد ستر نظر نہ آئے، پھر بائیں ہاتھ میں دستانے یا کوئی موٹا کپڑا پہن کر میت کو استنجا کرائیں، اس کے بعد وضو کرائیں اور وضو میں کلی نہ کرائیں نہ ناک میں پانی ڈالا جائے اور نہ گٹوں تک ہاتھ دھوئے جائیں، ہاں البتہ کوئی کپڑا یا روئی وغیرہ انگلی پر لپیٹ کر تر کرکے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر دیں، پھر اسی طرح ناک کے سوراخوں کو بھی صاف کردیں، خاص کر اگر  میت  جنبی یا حائضہ ہو تو منہ اور ناک پر انگلی پھیرنے  کا  زیادہ اہتمام کیا جائے، اس کے بعد ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں میں روئی رکھ دیں، تاکہ وضو وغسل کراتے ہوئے پانی اندر نہ جائے، وضو کرانے کے بعد ڈاڑھی وسر کے بالوں کو صابن وغیرہ سے خوب اچھی طرح دھو دیں، پھر مردے کو  بائیں کروٹ پر لٹاکر بیری کے پتوں میں پکا  ہوا یا سادہ نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر خوب اچھی طرح تین مرتبہ نیچے سے اوپر تک بہادیں تاکہ پانی بائیں کروٹ کے نیچے پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹاکر اس طرح بائیں کروٹ پر سر سے پیر تک تین مرتبہ پانی ڈالا جائے کہ پانی دائیں کروٹ تک پہنچ جائے، نیز پانی ڈالتے ہوئے بدن کو بھی آہستہ آہستہ ملا جائے، اگر میسر ہو تو صابن بھی استعمال کریں۔ اس کے بعد میت کو  ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اور پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں اگر کچھ نجاست نکلے تو صرف اس  کو  پونچھ کر دھو ڈالیں، وضو وغسل  لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد اسکو  بائیں کروٹ پر لٹاکر  کافور ملا ہوا پانی سرسے پیر تک تین دفعہ ڈالیں، پھر سارے بدن کو  تولیہ وغیرہ سے پونچھ دیا جائے۔ غسل دینے والے کا بعد میں خود غسل کرلینا مستحب یعنی بہتر ہے، واجب نہیں۔

کفن کے احکام

مرد کے کفن کے مسنون کپڑے تین ہیں :

(۱) ازار : سر سے پاؤں تک (۲) لفافہ : اس کو چادر بھی کہتے ہیں یہ ازار سے ایک ڈیڑھ ہاتھ لمبا ہوتا ہے (۳) قمیص : یعنی کرتا بغیر آستین اور بغیر کلی کے گلے سے پیروں تک۔

ویسن فی الکفن لہ إزار وقمیص ولفافۃ۔ (درمختار) قولہ: إزار الخ وہو من القرن إلی القدم والقمیص من أصل العنق إلی القدمین بلا دخریص وکمین واللفافۃ تزید علی ما فوق القرن والقدم۔ (شامی زکریا ۳؍۹۵، بیروت ۳؍۸۹-۹۰، ہدایہ مع الفتح ۲؍۱۱۳-۱۱۵)

مرد کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ :
چار پائی پر پہلے لفافہ بچھائیں پھر ازار اس کے بعد کُرتا۔ پھر مردے کو اس پر لے جاکر پہلے کُرتا پہنا دیں، پھر ازار لپیٹ دیں، اس طرح کہ پہلے بائیں طرف لپیٹا جائے پھر دائیں طرف (تاکہ داہنی طرف اوپر رہے) پھر چادر لپیٹیں، پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف پھر کسی پٹی وغیرہ سے پیروں اور سر اور کمر کے پاس سے کفن کو باندھ دیں، تاکہ راستہ میں کھل نہ جائے۔

تبسط اللفافۃ أولاً ثم یبسط الإزار علیہا ویقمص ویوضع علی الإزار ویلف یسارہ ثم یمینہ ثم اللفافۃ کذلک لیکون - إلی قولہ - ویعقد الکفن إن خیف انتشارہ الأیمن علی الأیسر۔ (درمختار مع الشامي زکریا ۳؍۹۸، بیروت ۳؍۹۳، طحطاوی ۳۱۶، بدائع ۲؍۴۰، عالمگیری ۱؍۱۶۱، ہدایہ مع الفتح ۲؍۱۱۷)

عورت کے کفن کے مسنون کپڑے پانچ ہیں : (۱) ازار (۲) لفافہ (۳) قمیص بغیر آستین اور کلی  کے (۴) سینہ بند پستانوں سے رانوں تک (۵) خمار (سربند) تین ہاتھ لمبا، خلاصہ یہ کہ تین کپڑے تو وہی ہے جو مرد کے ہیں اور دو کپڑے (سینہ بند اور سربند) زائد ہیں۔

ولہا درع أی قمیص وإزار وخمار ولفافۃ وخرقۃ تربط بہا ثدیاہا وبطنہا۔ (درمختار) وفی الشامی: خمار: ما تغطی بہ المرأۃ رأسہا۔ قال الشیخ اسماعیل: ومقدارہ حالۃ الموت ثلا ثۃ أذرع۔ قولہ: (وخرقۃ) والأولی أن تکون من الثدیین إلی الفخذین۔ (شامی زکریا ۳؍۹۶-۹۷، بیروت ۳؍۹۱، طحطاوی أشرفي ۵۷۸، ہندیۃ ۱؍۱۶۰، الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۱۵۲، بہشتی زیور قدیم ۲؍۷۸/ کتاب المسائل)

عورت کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ :
پہلے چادر (لفافہ) بچھائیں اس کے بعد سینہ بند رکھیں، اس کے اوپر ازار پھر کُرتا۔ پھر میت کو کفن پر لے جاکر پہلے کُرتا پہنائیں، اور سر کے بالوں کے دو حصے کرکے کُرتے کے اوپر سینے پر ڈال دیں، ایک حصہ داہنی طرف ایک حصہ بائیں طرف۔ اس کے بعد سربند کو سر اور بالوں پر ڈال دیں اس کو نہ باندھیں نہ لپیٹیں، پھر ازار لپیٹ دیں پہلے بائیں طرف پھر داہنی طرف۔ اس کے بعد سینہ بند باندھیں، پھر چادر لپیٹیں پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف، اس کے بعد پیر سر اور کمر کے پاس سے کفن کو پیٹوں سے باندھ دیں، تاکہ ہوا وغیرہ سے راستہ میں کھل نہ جائے۔

وأما المرأۃ فتبسط لہا اللفافۃ والإزار علی نحو ما بینّا للرجل، ثم توضع علی الإزار وتلبس الدرع ویجعل شعرہا ضفیرتین علی صدرہا فوق الدرع، ثم یجعل الخمار فوق ذلک، ثم یعطف الإزار واللفافۃ کما بینا فی الرجل ثم الخرقۃ بعد ذلک تربط فوق الأکفان فوق الثدیین۔ (ہندیہ ۱؍۱۶۱) وفی الشامی: تربط الخرقۃ علی الثدیین فوق الاکفان یحتمل أن یراد بہ تحت اللفافۃ وفوق الإزار والقمیص وہو الظاہر۔ (شامی زکریا ۳؍۹۹، بیروت ۳؍۹۳، تاترخانیۃ زکریا ۳؍۲۹، کبیری ۵۸۱)

قریب البلوغ لڑکا اور لڑکی بڑے مرد اور عورت کی طرح ہیں یعنی قریب البلوغ لڑکے کو مرد کی طرح تین کپڑوں میں اور قریب البلوغ لڑکی کو عورت کی طرح پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے گا، نیز بہت چھوٹے لڑکے اور لڑکی کو بھی اسی طرح کفن دیا جائے گا، البتہ ایسے چھوٹے بچوں میں لڑکے کے ایک کپڑے میں اور لڑکی کو دو کپڑوں میں کفن دینا بھی جائز ہے۔

والمراہق کالبالغ ومن لم یراہق إن کفن فی واحد جاز۔ (درمختار) وفی الشامیۃ: قال فی الزیلعی وأدنیٰ ما یکفن بہ الصبی الصغیر ثوب واحد والصبیۃ ثوبان۔ وفی الحلیۃ عن الخانیۃوالخلاصۃ: الطفل الذی لم یبلغ حد الشہوۃ الأحسن أن یکفن فیما یکفن فیہ البالغ وإن کفن فی ثوب واحد جاز۔ (شامی زکریا ۳؍۹۹، بیورت ۳؍۹۳-۹۴، بدائع ۲؍۳۹، طحطاوی أشرفي ۵۷۵، فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل ۸؍۵۱۰، بہشتی زیور ۲؍۵۶)

تدفین کا مسنون طریقہ

🔹 میت کو کفن دینے کے بعد میّت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتاریں، اور داہنی طرف کروٹ کو لٹائیں اور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف کردیں، میت کو قبر میں لٹانے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ میت کو قبر میں داہنی کروٹ پر روبقبلہ لٹایا جائے اور میت کی طرف مٹی یا ڈھیلے سے تکیہ لگادیں تاکہ میت داہنی کروٹ پر قائم رہے، پشت کی جانب لوٹ نہ جائے، ویوجہ إلیہا (القبلة) وجوبًا․ وینبغي کونہ علی شقہ ا لأیمن (درمختار) ووجہہ أن ظاہر التسویة بین الحیاة والمماة في وجوب القبلة، لیکن صرح في التحفة بأنہ سنة (شامی: ۳/۱۴۱ زکریا) چٹ لٹانے اور صرف منہ قبلہ کی طرف کرنے کا جو عام رواج ہوگیا ہے، وہ سنت متوارثہ کے خلاف ہے اور اس طرح صرف منھ قبلہ کی طر ف کرنے سے بعد میں منھ کے قبلہ سے پھرنے کا اندیشہ رہتا ہے، اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے اورجو مسنون طریقہ ہے اسے رائج کرنا چاہیے ۔

عن ابن عباس ؓ أن رسول اللہ ﷺ دخل قبراً لیلاً ، فأسرج لہ سراج، فأخذہ من قبل القبلۃ الحدیث۔( سنن الترمذی ، الجنائز، باب ماجاء فی الدفن باللیل ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۰۴، دارالسلام رقم: ۱۰۵۷)

🔹 عورت کا جنازہ اتارنے والے اس کے محرم ہوں، یہ نہ ہوں تو دوسرے رشتہ دار اور یہ بھی نہ ہوں تو پرہیز گار اجنبی اتاریں، اور عورت کا جنازہ قبر میں اتارنے سے تختہ لگانے تک قبر کو کپڑے وغیرہ سے چھپائے رکھیں ۔

عن علی بن أبي طالبؓ أنہ أتاہم قال: ونحن ندفن میتاً وقد بسط الثوب علی قبرہ، فجذب الثوب من القبر وقال: إنما یصنع ہذا بالنساء۔( السنن الکبری للبیہقی ، الجنائز، باب ماروی فی سترا لقبر بثوب، دارالفکر ۵/۳۹۹،رقم: ۷۱۴۹)

🔹 میت کو قبر میں رکھتے وقت یہ دعا پڑھیں :

بِسْمِ اللَّهِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ

عن ابن عمر ؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ : إذا وضعتم موتاکم في قبورہم فقولوا بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ ۔
(سنن الترمذی ، الجنائز، باب ماجاء مایقول إذا أدخل المیت في قبرہ ،النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۰۲، دارالسلام رقم: ۱۰۴۶)

🔹 قبر میں رکھنے کے بعد کفن کی بندش کھول دیں، اور لحد کو کچی انیٹوں سے بند کردیں، تختے لگانا بھی جائز ہے، قبر صندوقی ہوتو اس کا بھی یہی حکم ہے ۔

عن عامر بن سعد بن أبي وقاص أن سعد بن أبي وقاص قال في مرضہ الذي ہلک فیہ الحدوا لي لحداً، وانصبوا علی اللبن نصبا، کما صنع برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔( مسلم ، الجنائز، فی استحباب اللحد، النسخۃ الندیۃ ۱/۳۱۱، بیت الأفکار رقم: ۹۶۶)

🔹 اس کے بعد مٹی ڈالنا شروع کریں۔
تین مٹھیاں ڈالنا مستحب ہے، پہلی مٹھی ڈالتے وقت “منھا خلقنٰکم” پڑھے، دُوسری کے وقت “وفیھا نعیدکم”، اور تیسری کے وقت “ومنھا نخرجکم تارة اخریٰ” پڑھے، اگر یہ عمل نہ کیا جائے تب بھی کوئی گناہ نہیں ہے ۔

عن أبی أمامۃ (رضی اللہ عنہ ) قال: لما وضعت أم کلثوم ابنۃرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہا خلقنکم وفیہا نعید کم ومنہا نخرجکم تارۃ أخریٰ الخ۔ (مسند احمد ۵/۲۵۴، رقم: ۲۲۵۴۰)
اس حدیث کی سند میں علی بن یزید ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب رقم:۴۸۳۳)

🔹 قبر پر پانی چھڑکنا مسنون ہے۔

عن جعفر بن محمد، عن أبيه:أن النبي -صلى اللہ عليه وسلم- رش على قبر ابنه إبراهيم ووضع عليه حصباء. (الرش تفريق الماء والحصباء: الحصى ومعلوم أن إبراهيم مات طفلا لا وزر عليه وإنما يفعل ذلك الرسول تعليما لنا.(مسند الإمام الشافعي(م:۲۰۴هـ):۱؍۲۱۵، رقم الحدیث: ۵۹۹،)

🔹 تدفین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم میت کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدا ئی آیات المفلحون تک اور پیر کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیت آمن الرسول سے اخیر تک پڑھتےتھے ۔

عطاء بن أبي رباح، يقول: سمعت ابن عمر، يقول: سمعت النبي صلى اللہ عليه وسلم يقول:إذا مات أحدكم فلا تحبسوه، وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب، وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره.(المعجم الكبير- أبو القاسم الطبراني (م:۳۶۰هـ):۱۲؍۴۴۴، رقم الحدیث:۱۳۶۱۳)

🔹 اخیر میں قبر پر دعا کرنا بھی مستحب ہے، اور اس دعا میں ہاتھ اٹھانا بھی جائز ہے، لیکن دعاء کے وقت منہ قبلہ کی طرف کریں، قبر کی طرف نہ کریں ۔

وفي حديث بن مسعود رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في قبر عبد اللہ ذي النجادين الحديث، وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه، أخرجه أبو عوانة في صحيحه.(فتح الباري شرح صحيح البخاري-أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي(م:۸۵۲ھـ):۱۱؍۱۴۴، کتاب الدعوات، باب الدعاءمستقبل القبلۃ، ط: دار المعرفة - بيروت)
مستفاد : کتاب المسائل/کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 جمادی الاول 1442

2 تبصرے: