پیر، 4 جنوری، 2021

صف میں اکیلے نماز پڑھنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! ہماری مسجد میں ایک مصلی (جوش میں) کہنے لگے : "مسائل کی معلومات لوگوں میں بہت کم ہے۔ میں ایک مسجد میں نماز ادا کرنے گیا، جماعت کھڑی تھی، صفیں مکمل تھیں، میں نے آخری صف میں سے ایک مصلی کو (با جماعت نماز کے دوران) پکڑ کر پیچھے صف میں اپنے ساتھ کھڑا کرنے کے لئے کھینچا۔ مگر وہ اُلجھ گیا۔
سوال آپ سے یہ ہے کہ (با جماعت نماز کے دوران) اگلی صفیں مکمل ہونے کے بعد آنے والے ایک مصلِّی کا پچھلی صف میں اکیلے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے آدمی کا آخری صف میں سے نمازی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملانے کا کیا حکم ہے؟ وضاحت فرما دیں گے تو بہت سے لوگوں کے علم میں اضافہ اور بعض کے شکوک و شبہات کا ازالہ ہوگا۔
(المستفتی : تَوصِیف اِشتِیاق، مسجد بھاؤ میاں، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود پچھلی صف میں تنہا نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اور اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو تو پھر بعد والی صف میں اکیلے کھڑے ہونا بلاکراہت درست ہے۔ لیکن اس صورت میں اگر اگلی صف میں کنارے کوئی ایسا آدمی ہو جو اس مسئلہ کے متعلق معلومات رکھتا ہو اور اس کو کھینچنے سے اس کی نماز فاسد ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اس کو کھینچ کر اپنے ساتھ کھڑا کر کے نماز پڑھنا بہتر ہے، فرض یا واجب نہیں۔ چنانچہ اس مسئلہ پر عمل کرنے کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ اور چونکہ یہ عمل فرض، واجب یا سنت نہیں ہے، لہٰذا سوال نامہ میں آپ کے مصلی کا برہم ہونا بھی بہتر نہیں ہے۔

حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید مولانا ظفر احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الاحکام میں طحطاوی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایسا شخص تنہا کھڑا ہوجائے اگلی صف سے کسی کو نہ کھینچے۔ (١/٧٩٧)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بہتر ہے کہ کسی اور مقتدی  کا انتظار کرلے اگر کوئی آجائے تو اس کے ساتھ صف لگالے، اگر امام کے رکوع تک کوئی نہ آئے تو دوسری صف میں اکیلے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فی زماننا عوام کی علمی حالات کے پیشِ نظر یہی بہتر ہے اور اسی میں احتیاط ہے۔

عن عطاء : في الرجل یدخل المسجد وقدم تم الصف، قال : إن استطاع أن یدخل في الصف دخل، وإلا أخذ بید رجل فأقامہ ولم یقم وحدہ۔ (المصنف لإبن أبي شیبۃ، رقم : ۲۶۰۲)

أَتَى جَمَاعَةً وَلَمْ يَجِدْ فِي الصَّفِّ فُرْجَةً قِيلَ يَقُومُ وَحْدَهُ وَيُعْذَرُ، وَقِيلَ يَجْذِبُ وَاحِدًا مِنْ الصَّفِّ إلَى نَفْسِهِ فَيَقِفُ بِجَنْبِهِ. وَالْأَصَحُّ مَا رَوَى هِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ يَنْتَظِرُ إلَى الرُّكُوعِ، فَإِنْ جَاءَ رَجُلٌ وَإِلَّا جَذَبَ إلَيْهِ رَجُلًا أَوْ دَخَلَ فِي الصَّفِّ، ثُمَّ قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: وَالْقِيَامُ وَحْدَهُ أَوْلَى فِي زَمَانِنَا لِغَلَبَةِ الْجَهْلِ عَلَى الْعَوَامّ فَإِذَا جَرَّهُ تَفْسُدُ صَلَاتُهُ۔  (شامي، کتاب الصلاۃ، باب ما تفسد الصلاۃ، مطلب إذا أتردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ، ١/٦٤٧)

والأولى في زماننا عدم الجذب والقيام وحده ۔ (طحطاوی علی مراقی الفلاح : ٣٨٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 جمادی الاول 1442

5 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ
    جزاک اللہ خیرا مفتی صاحب 🌹🌹🌹💐💐💐🌷🌷🌷

    توصیف اشتیاق

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام وعلیکم و رحمۃ اللّٰہ
    ماشاء اللہ بہت خوب
    مفتی صاحب یہ مسئلہ بہت پہلے ٹیچر دوست نے بتایا تھا مگر مصلّی کے اُلجھنے کے دڑ سے میں نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا۔ مگر دل میں اُلجھن ضرور رہتی تھی ماشاء اللہ آج وہ بھی دور ہو گئی۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں