جمعہ، 22 جنوری، 2021

بیوہ حمل ساقط کرا دے تو اس کی عدت کیا ہوگی؟

سوال :

مفتی صاحب ! ایک شخص نے نکاح کیا دو مہینے کے اندر اس کی اہلیہ حاملہ ہوگئی اب اس شخص کا انتقال ہو گیا پھر اس لڑکی کے گھر والوں نے حمل گروا دیا۔
1) کیا لڑکی کے گھر والوں کا حمل گروا نے والا عمل صحیح ہوگا؟ جبکہ حمل 4 مہینے کے اندر گروایا گیا ہے۔
2) اب اس لڑکی کی عدت کیا ہوگی 4 مہینے 10 دن یا اور کچھ؟ مدلل جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں۔
(المستفتی : عباد اللہ، تھانہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اِسقاطِ حمل اَصل میں منع ہے، البتہ ایسی سنگین صورت پیش آجائے کہ اِسقاط کے بغیر چارہ نہ رہے، مثلاً عورت کا دودھ پیتا بچہ ہو اورحمل کی وجہ سے دودھ اُترنا بند ہوجائے، یا عورت کی صحت کو سخت خطرہ لاحق ہو تو حمل میں جان پڑنے یعنی ایک سو بیس دن گذرنے سے پہلے تک اِسقاط کی گنجائش ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر ایسا ہی کوئی عذر لاحق تھا تو پھر بیوہ کا اسقاط حمل کرانا جائز تھا، لیکن ایسا کوئی عذر نہیں تھا تو پھر اسقاط کروانے کی وجہ سے گھر والے گناہ گار ہوں گے، خواہ حمل چار مہینے کے اندر ہی کیوں نہ ساقط کرایا گیا ہو۔

2) بیوہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہوتی ہے اور وضع  حمل کے ذریعہ سے  عدت  پوری ہونے کے لیے یہ لازم اور ضروری ہے کہ بچہ کی خلقت واضح ہو گئی ہو، یا اس کے ہاتھ پیر بن گئے ہوں، یا اس میں جان پڑگئی ہو، اور اس کی مدت چار مہینے یعنی ۱۲۰ دن شمار کی گئی ہے، لہٰذا چار مہینے سے پہلے جو حمل گرجائے یا خود سے صفائی کرائی جائے تو دونوں صورتوں میں عدت پوری نہیں ہوگی، بلکہ ایسی بیوہ عورت کے لیے شوہر کی وفات کے وقت سے چار مہینے دس دن  عدتِ وفات گزارنا لازم ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ چار مہینہ یعنی ایک سو بیس دن گزرنے سے پہلے اسقاط کرایا گیا ہے، لہٰذا اس کی عدت شوہر کی وفات سے چار مہینہ دس دن ہوگی۔

الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ...... امْرَأَةٌ مُرْضِعَةٌ ظَهَرَ بِهَا حَبَلٌ وَانْقَطَعَ لَبَنُهَا وَتَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا الْهَلَاكَ وَلَيْسَ لِأَبِي هَذَا الْوَلَدِ سَعَةٌ حَتَّى يَسْتَأْجِرَ الظِّئْرَ يُبَاحُ لَهَا أَنْ تُعَالِجَ فِي اسْتِنْزَالِ الدَّمِ مَا دَامَ نُطْفَةً أَوْ مُضْغَةً أَوْ عَلَقَةً لَمْ يُخْلَقْ لَهُ عُضْوٌ وَخَلْقُهُ لَا يَسْتَبِينُ إلَّا بَعْدَ مِائَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا أَرْبَعُونَ نُطْفَةً وَأَرْبَعُونَ عَلَقَةً وَأَرْبَعُونَ مُضْغَةً كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ. وَهَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن عشر، ۵/۳۵۶)

وَالْمُرَادُ بِهِ الْحَمْلُ الَّذِي اسْتَبَانَ بَعْضُ خَلْقِهِ، أَوْ كُلُّهُ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَبِنْ بَعْضُهُ لَمْ تَنْقَضِ الْعِدَّةُ لِأَنَّ الْحَمْلَ اسْمٌ لِنُطْفَةٍ مُتَغَيِّرَةٍ، فَإِذَا كَانَ مُضْغَةً، أَوْ عَلَقَةً لَمْ تَتَغَيَّرْ، فَلَا يُعْرَفُ كَوْنُهَا مُتَغَيِّرَةً بِيَقِينٍ إلَّا بِاسْتِبَانَةِ بَعْضِ الْخَلْقِ بَحْرٌ عَنْ الْمُحِيطِ. وَفِيهِ عَنْهُ أَيْضًا أَنَّهُ لَا يَسْتَبِينُ إلَّا فِي مِائَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا. وَفِيهِ عَنْ الْمُجْتَبَى أَنَّ الْمُسْتَبِينَ بَعْضُ خَلْقِهِ يُعْتَبَرُ فِيهِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، وَتَامَّ الْخَلْقِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، مطلب: فی عدۃ الموت : ۳/۵۱۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الآخر 1442

3 تبصرے: