جمعہ، 16 فروری، 2024

بندوق سے کیے گئے شکار کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! اکثر لوگ پرندوں کا شکار بندوق سے کرتے ہیں، گولی لگنے کے بعد پرندے ذبح کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گولی مارنے سے پہلے اگر بسم اللہ...... پڑھ لیں اور گولی سے پرندہ مر جائے تو وہ بھی حلال رہے گا۔ ذبح نہیں بھی کیا اور وہ گولی سے مرگیا تو حلال رہے گا۔کیا یہ بات صحیح ہے؟
(المستفتی : شمیم سر، دھولیہ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بندوق کے ذریعے کیے ہوئے شکار میں شرعاً کچھ تفصیل ہے اور وہ درج ذیل ہے :

گولی کی دو قسمیں ہیں :

گولی کی پہلی قسم : جو محدد اور نوک دار نہ ہو، جیسے پستول کی گولی ہو یا گول چھرے والا کارتوس، اس سے کئے ہوئے شکار کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے، بعض علماء کرام نے اسے حلال کہا ہے، لیکن جمہور احناف کا قول یہ ہے کہ اس سے کیا ہوا شکار حلال نہیں، لہٰذا جب تک شرعی طریقہ سے اس کو ذبح نہ کیا جائے، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

گولی کی دوسری قسم : جو محدد اور نوک دار ہو، جیسے کلاشنکوف، جی تھری اور تھری ناٹ تھری وغیرہ کی گولی یا نوک دار چھرے والا کارتوس، اس میں چونکہ زخم کھولنے اور "خزق" یعنی چھید کر پار ہونے کی صلاحیت موجود ہے، لہٰذا یہ بھی آلات جارحہ میں داخل ہو کر، اس کا حکم تیر ہی کا حکم ہے اور اس سے کیا ہوا شکار بالاتفاق حلال ہے، یعنی اگر
"بسم اللہ" پڑھ کر چھوڑی جائے اور شکاری کے پہنچنے سے پہلے جانور اس کے ذریعے مر جائے، تو وہ حلال ہوگا۔

قَالَ قَاضِي خَانْ : لَا يَحِلُّ صَيْدُ الْبُنْدُقَةِ وَالْحَجَرِ وَالْمِعْرَاضِ وَالْعَصَا وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَإِنْ جَرَحَ؛ لِأَنَّهُ لَا يَخْرِقُ إلَّا أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ قَدْ حَدَّدَهُ وَطُولُهُ كَالسَّهْمِ وَأَمْكَنَ أَنْ يَرْمِيَ بِهِ؛ فَإِنْ كَانَ كَذَلِكَ وَخَرَقَهُ بِحَدِّهِ حَلَّ أَكْلُهُ، فَأَمَّا الْجُرْحُ الَّذِي يُدَقُّ فِي الْبَاطِنِ وَلَا يَخْرِقُ فِي الظَّاهِرِ لَا يَحِلُّ لِأَنَّهُ لَا يَحْصُلُ بِهِ إنْهَارُ الدَّمِ؛ وَمُثَقَّلُ الْحَدِيدِ وَغَيْرِ الْحَدِيدِ سَوَاءٌ، إنْ خَزَقَ حَلَّ وَإِلَّا فَلَا اهـ۔ (شامی : ٦/٤١٧)
مستفاد : فتوی دارالعلوم کراچی، رقم الفتوی : 49/1549)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 شعبان المعظم 1445

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں