منگل، 7 ستمبر، 2021

بائیں ہاتھ سے تسبیح شمار کرنے کا حکم

سوال :

کیا تسبیحات صرف دائیں ہاتھ پر پڑھنی چاہیے جیسا کہ حضرت مولانا مفتی زر ولی صاحب فرما رہے ہیں، حضرت کے بارے میں اکابر علماء اور آپ کی کیا رائے ہے؟ ایک شخص اکثر ان کی کلپس بھیج کر سوال کرتا رہتا ہے۔
(المستفتی : حافظ مجتبی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ذکر و اَذکار میں مقصود بالذات تسبیحِ باری تعالیٰ ہوتی ہے اور شمار کرنا مقصود اصلی نہیں ہوتا، اس وجہ سے احادیث میں مختلف طریقوں سے شمار کرنے کا تذکرہ ملتا ہے، ان میں سے ایک طریقہ ہاتھ کی انگلیوں سے شمار کرنے کا بھی منقول ہے، البتہ ایک روایت کے علاوہ باقی تمام روایات میں دائیں یا بائیں ہاتھ کی تعیین منقول نہیں، جس کی وجہ سے سے فقہاء و محدثین نے دونوں ہاتھوں میں سے کسی بھی ہاتھ سے شمار کرنے کی اجازت دی ہے، البتہ دائیں ہاتھ سے شمار کرنے کو افضل قرار دیا ہے، جیسا کہ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں موجود ہے۔ (فتویٰ جامعہ بنوریہ)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
تسبیح سیدھے ہاتھ کی انگلیوں پر پڑھنی چاہیے یا الٹے ہاتھ کی انگلیوں پر اس بابت صحیح روایات سے کوئی پابندی منقول نہیں، اس لیے دونوں ہاتھ میں سے جس ہاتھ پر چاہیں پڑھ سکتے ہیں، البتہ بعض روایت میں ہے : عن عبد اللہ بن عمرو، قال: رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعقد التسبیح ، قال ابن قدامة : بیمینہ (سنن أبي داوٴد) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح پڑھنا بہتر ہے نیز تیامن کی روایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہراچھی چیز کو دائیں ہاتھ یا دائیں جانب سے کرنے کو پسند فرماتے تھے، اس سے بھی دائیں ہاتھ پر پڑھنا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ (رقم الفتوی : 161247)

معلوم ہوا کہ انگلیوں پر تسبیح پڑھتے وقت دایاں یعنی سیدھا ہاتھ استعمال کرنا مسنون اور بہتر ہے، البتہ بائیں ہاتھ سے شمار کرنا بھی بلاکراہت درست ہے۔ کیونکہ دونوں ہاتھوں سے تسبیح شمار کرنے کا تعامل امت میں قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے، سابقہ زمانوں میں بھی اہلِ علم نے اس سے منع نہیں کیا۔ لہٰذا اس سلسلے میں شدت اور سختی کا مظاہرہ کرنا درست نہیں۔

ایک مرتبہ ہمارے حلقہ دارالافتاء میں حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق بات نکلی تھی تو سرپرستِ حلقہ حضرت مولانا مفتی مسعود اختر صاحب قاسمی نے درج ذیل تبصرہ کیا تھا۔

حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب پڑوس کے ملک کے ایک جیّد، بزرگ اور ذی استعداد وباصلاحیت عالم دین، استاذ حدیث وفقہ وتفسير ہیں۔ موصوف کا مقام ومرتبہ اور تفقہ فی الدین اپنی جگہ قابلِ رشک ہے۔ لیکن اہل علم ومفتیانِ کرام (جن میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب وغیرہ حضرات خصوصاً قابلِ ذکر ہیں) نے بہت سے مسائل میں مفتی صاحب موصوف کے جمہور علماء کے خلاف بیان کردہ بعض فتاوی کو موصوف کے تفردات میں شمار کیا ہے۔ جن پر عمل کرنے کی اجازت نہیں۔ واللہ اعلم
مسعود اختر قاسمی غفراللہ لہ
٢٥ / رجب المرجب ١٤٣٩ ھ

اس وقت بندے نے لکھا تھا کہ ان کے معتقدین کہتے ہیں کہ ان کا جواب نہیں دیا جاتا بلکہ ان کا تفرد کہہ کر بات ٹال دی جاتی ہے، جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، ان کے اکثر تفردات کا کافی شافی جواب محققین علماء نے دیا ہے، اور دے رہے ہیں، اور ان شاءاللہ دیتے رہیں گے۔

اسی کے ساتھ بندہ یہ بات بھی کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ مسائل میں ان کی پیروی کرنے والے اکثر وہ حضرات ہوتے ہیں جو I m something کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، اور دیگر علماء اور عوام کو یہ مسائل بیان کرکے ان پر اپنا علمی رعب جمانا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کو درج ذیل حدیث شریف پیش نظر رکھنا چاہیے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں علم اس لئے حاصل نہ کرو کہ علماء کے سامنے فخر کرو یا جاہلوں سے تکرار کرو اور نہ ہی علم سے (دنیوی جاہ کی) مجالس تلاش کرو جو ایسا کرے گا تو اس کے لیے آگ ہے آگ۔ (ابن ماجہ)

نیز دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم کی یہ نصیحت یاد رکھنا چاہیے۔

آج کے اکابر میں سے ان کی اقتداء کرو جن کی رائے سلف سے منحرف نہ ہو اور اگر ان کی رائے سلف کی رائے سے الگ ہو تو ان کی اقتداء مت کرو چاہے میں ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ آج کل لوگوں کے اندر تفردات کا بخار ہے ہر آدمی اپنے علم کو منوانا چاہتا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُ التَّسْبِيحَ. قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ : بِيَمِينِهِ۔ (ابوداؤد، رقم : ١٥٠٢)

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى۔ (ابوداؤد، رقم : ٣٣)

وصح أنه ﷺ كان يعقد التسبيح بيمينه وورد أنه قال واعقدوه بالأنامل فإنهن مسؤولات مستنطقات وجاء بسند ضعيف عن علي مرفوعا نعم المذكر السبحة قالابن حجر والروايات بالتسبح بالنوى والحصا كثيرة عن الصحابة وبعض أمهات المؤمنين بل رآها ﷺ وأقرا عليه وعقد التسبيح بالأنامل أفضل من السبحة وقيل إن أمن من الغلط فهو أولى وإلا فهي أولى كذا في شرح المشكاة۔ (حاشیۃ الطحطاوی : ٣١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 محرم الحرام 1443

2 تبصرے: