جمعرات، 2 ستمبر، 2021

حدیث شریف میں مذکور لا خلابۃ کی تشریح

سوال :

مفتی صاحب ! کیا مندرجہ ذیل حدیث مستند و معتبر ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انصار کا ایک آدمی تھا، جسے لوگ بیع میں دھوکہ دیتے تھے، اس کی زبان میں لکنت بھی تھی، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ساتھ ہونے والے دھوکہ کی شکایت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم بیع کیا کرو، تو تم یوں کہہ لیا کرو کہ "اس بیع میں کوئی دھوکہ نہیں ہے"، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ واللہ! یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے اب بھی میں اسے بیع کرتے ہوئے لاخِلابۃ کہتے ہوئے سن رہا ہوں اور اس کی زبان اڑ رہی ہے۔ (بخاری و مسلم) (مسند احمد:ج، سوم، حدیث، 1645)
بعض لوگ (جن میں صاحبِ *عبقری* بھی ہیں) اس حدیث شریف سے ظاہر معنی مراد لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لفظ *لا خِلابہ* بے شمار اللہ والوں سے منقول ہے، لڑکے یا لڑکی کا کہیں رشتہ کرنا ہے، شادی کی خریداری کرنی ہے، قربانی کے لیے جانور خریدنا ہے، کاروبار میں لین دین حتی کہ آپ بازار سے کوئی سودا سلف ہی خریدنے جا رہے ہیں، تو مُنہ میں *اللہم لا خِلابۃ* پڑھتے ہوئے جائیں، پھر اس جادوئی لفظ کا کمال خود دیکھیے، آپ کو سب سے بہترین چیز آپ کے معیار اور قیمت کے مطابق ملے گی اور آپ کو ان تمام معاملات میں نقصان نہیں اُٹھانا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ حدیث لا خلابہ کا اصل منشاء کیا ہے؟ اور بعض لوگوں نے جو مذکورہ مراد لی ہے کیا وہ درست ہے؟
(المستفتی : قاری توصیف، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت معتبر ہے اور بخاری ومسلم سمیت دیگر کتب احادیث میں بھی موجود ہے۔

ایک صحابی جن کا نام حبان ابن منقذ رضی اللہ عنہ ہے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وہ اکثر خرید و فروخت میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : جب تم خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرو تو سامنے والے کو لاخلابۃ کہہ دیا کرو یعنی دھوکہ نہیں چلے گا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ شارحین حدیث و فقہاء نے اس حدیث کے مختلف معنی بیان کیے ہیں، جن میں سب سے بہتر مطلب درج ذیل ہے :

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد مبارک : "فَقُلْ : لَا خِلَابَةَ" (تم کہہ دیا کرو کہ دھوکہ نہیں چلے گا) کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی کو حکم دیا تھا کہ جب تم کسی شخص سے خرید و فروخت کا معاملہ کرو، تو پہلے اس کو آگاہ کردیا کرو کہ دیکھو بھائی ! مجھے خرید و فروخت کے معاملات سے زیادہ واقفیت نہیں ہے، تم کوئی ایسا کوئی معاملہ میرے ساتھ نہ کرنا جس سے میں دھوکہ کھا جاؤں اور مجھے کوئی نقصان پہنچ جائے، اور چونکہ ہمارے دین میں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کو دھوکہ و فریب میں مبتلا کیا جائے، اس لیے مہربانی کرکے تم میرے ساتھ کوئی دھوکہ و فریب نہ کرنا۔

چنانچہ یہ اس پُرخیر دور کی بات ہے، جہاں عام طور پر لوگ دیانتداری، امانت اور پرہیزگاری کے حامل تھے، مخلوق خدا کی بھلائی کا جذبہ تھا، ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے وہی بات پسند کرتا تھا، جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا تھا، خصوصاً اگر کوئی کسی کو آگاہ کردیتا کہ میرے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کرنا، جس سے مجھے نقصان و تکلیف ہو، تو وہ اس کا بطورِ خاص خیال رکھتا کہ میں کسی نادانستگی میں بھی اس کو نقصان پہنچنے کا ذریعہ نہ بن جاؤں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات کی تعلیم فرمائی کہ اگر وہ اپنے بارے میں اس طرح آگاہ کردیا کرے گا، تو لوگ اس کی خیر خواہی بہر صورت ملحوظ رکھیں گے۔ (مستفاد : مظاہر حق، ٣/٦٠)

صاحب عبقری کوئی علمی شخصیت نہیں ہیں، لہٰذا ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ان کا کام امت کو صرف وظائف، بے معنی اور غیرثابت شدہ چیزوں میں لگا دینا ہے۔ صرف اللھم لا خلابۃ پڑھ لینا اور یہ سمجھ لینا کہ اب ہر معاملے میں خیر ہی مقدر ہوگی خام خیالی ہے، دین کے دیگر احکامات بھی ہیں، نکاح کا معاملہ ہوتو وہاں دینداری کو ترجیح دینا، استخارہ کرنا اور اپنے طور سے تحقیق کرلینے کا بھی حکم ہے، خرید وفروخت کے معاملے میں آنکھ بند کرکے کسی کے اوپر بھروسہ کرلینا بھی شریعت کے مزاج کے خلاف ہے، بلکہ یہاں بھی تجربہ کاروں سے مشورہ اور تحقیق کرلینا بھی اہمیت رکھتا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَجُلًا ذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ، وَسَلَّمَ أَنَّهُ يُخْدَعُ فِي الْبُيُوعِ ، فَقَالَ : إِذَا بَايَعْتَ ، فَقُلْ : لَا خِلَابَةَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٢١١٧)

قالَ التُّورِبِشْتِيُّ : لَقَّنَهُ النَّبِيُّ ﷺ هَذا القَوْلَ لِيَتَلَفَّظَ بِهِ عِنْدَ البَيْعِ لِيُنَبِّهَ بِهِ صاحِبَهُ عَلى أنَّهُ لَيْسَ مِن ذَوِي البَصائِرِ فِي مَعْرِفَةِ السِّلَعِ ومَقادِيرِ القِيمَةِ فِيها، فَيَمْتَنِعُ بِذَلِكَ عَنْ مَظانِّ الغَبْنِ ويَرى لَهُ كَما يَرى لِنَفْسِهِ، وكانَ النّاسُ فِي ذَلِكَ الزَّمانِ أحِقّاءَ بِأنْ يُعِينُوا أخاهُمُ المُسْلِمَ ويَنْظُرُوا لَهُ أكْثَرَ مِمّا يَنْظُرُونَ لِأنْفُسِهِمْ. قالَ الطِّيبِيُّ: وهَذا هُوَ الوَجْهُ ولا خِلابَةَ لِنَفْيِ الجِنْسِ وخَبَرُهُ مَحْذُوفٌ عَلى الحِجازِ أيْ: لا خِداعَ فِي الدِّينِ لِأنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٥/١٩١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 محرم الحرام 1443

7 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ بہت عمدہ
    اللہ جزائے خیر عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ڈاکٹر فروغ عابد12 دسمبر، 2023 کو 12:21 PM

    جزاک اللہ خیرا کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ مفتی صاحب بہت خوب جواب دیا گیا ہے کیونکہ اکثر عوام تو کیا خواص بھی مبتلا ہیں فجزاکم اللّہ عنی وعن سائرالمسلمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. اپ نے بھی اضافی بات کی اللھم سا تھ نہیں

    جواب دیںحذف کریں