پیر، 6 ستمبر، 2021

تدفین کے بعد قبر پر ٹھہرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! ایسا کہیں پڑھنے میں آیا ہیکہ کِسی کے والدین یا عزیز کا اِنتقال ہوجائے تو اُسے دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس بیٹھ کر تلاوت کرتے رہنا چاہیئے اتنی دیر تک جتنا کہ ایک اونٹ ذبح  ہوکر اُس کا گوشت تقسیم ہوجائے ، اس سے دفن ہونے والے کی روح کو تسلی ملتی ہے۔ کیا ایسی کوئی صحیح حدیث ہے؟ اور اگر ہے تو ہمارے شہر مالیگاؤں میں جو مٹی دینے کے فوراً بعد جنازہ ہال میں متوفی کے گھر والوں تسلی دینے کا مسنون عمل کیا جاتا ہے اِس سے مذکور بالا حدیث کے مطابق عمل کیسے ہوسکتا ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سفیان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس روایت کا ذکر ہے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے۔ البتہ یہ بات حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وصیت میں موجود ہے جسے اثر کہا جاتا ہے جو مسلم شریف میں مذکور ہے۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں نے اس وقت جب کہ وہ حالت نزع میں تھے اپنے صاحبزادے (حضرت عبداللہ) کو یہ وصیت کی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازہ کے ہمراہ نہ تو کوئی نوحہ کرنے والی ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنے لگو تو میرے اوپر مٹی آہستہ آہستہ (یعنی تھوڑی تھوڑی کر کے) ڈالنا پھر دفن کر دینے کے بعد میری قبر کے پاس دعائے استقامت و مغفرت اور ایصال ثواب کے لئے اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ میں تمہاری وجہ سے آرام پا جاؤں اور بغیر کسی وحشت و گھبراہٹ کے جان لوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ (١)

اس سلسلے میں ہمیں حدیث شریف میں جو رہنمائی ہے وہ درج ذیل ہے :

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرکے فارغ ہو جاتے تو قبر پر رکتے اور فرماتے، اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور ثابت قدمی کی دعا کرو بیشک اب اس سے سوال کیا جائے گا۔ (٢)

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے روک کر مت رکھو اور جلد از جلد اسے اس کی قبر تک پہنچاوٴ اور (دفن کے بعد) اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (شروع سے ھم المفلحون تک) اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھی جائیں۔ (٣)

حضرت عبداﷲ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداﷲ ذی النجادین کی قبر پر دیکھا جب ان کےدفن سے فارغ ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ (٤)

یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے تدفین سے فراغت کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر ٹھہرنے کو مستحب لکھا ہے جتنی دیر ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے، اور اس دوران میت کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جوابات میں ثابت قدمی اور مغفرت کی دعا نیز قرآن مجید پڑھنے کا حکم ہے۔

اب یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ تدفین سے مراد ہم کیا سمجھ رہے ہیں؟ تو معلوم ہونا چاہیے کہ تدفین سے مراد یہی ہے کہ میت کو قبر میں اتار دیا گیا اور اس پر مٹی ڈال دی گئی، اب اس کے بعد میت کے سرہانے اور پیروں کی طرف جو قرآن کریم (الم سے مفلحون تک اور آمن الرسول سے آخر تک) پڑھا جائے گا، نیز اس کے بعد اس کی مغفرت اور منکر نکیر کے سوالات کی آسانی کے لیے قبر کے پاس جو دعا کی جائے گی تو یہ سب اسی میں شامل ہے۔ یعنی ان اعمال کے کرلینے کے بعد اب دوبارہ میت کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کریم کی تلاوت یا دعا کے لیے ٹھہرنا ضروری نہیں۔ اور عرب کے لوگ یہ دونوں کام (اونٹ ذبح کرنا اور اس کا گوشت تقسیم کرنا) بڑی پھرتی سے انجام دے دیا کرتے تھے۔ چنانچہ تدفین کے بعد قرآن مجید پڑھنے اور دعا کرنے میں جو دس منٹ تک کا وقت لگتا ہے اتنا کافی ہے، لہٰذا ہمارے یہاں جو معمول بنا ہوا ہے وہ درست ہے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

١) وعن عمرو بن العاص قال لابنہ وھو في سیاق الموت : إِذَا أَنَا مُتُّ، فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا ؛ حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٢١)

٢) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ قَالَ أَبُو دَاوُد بَحِيرٌ ابْنُ رَيْسَانَ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٣٢٢١)

٣) عَنْ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: «إذا ماتَ أحَدُكُمْ فَلا تَحْبِسُوهُ وأسْرِعُوا بِهِ إلى قَبْرِهِ ولْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ فاتِحَةُ الكِتابِ وعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخاتِمَةِ البَقَرَةِ فِي قَبْرِهِ۔ (شعب الایمان، رقم : ٨٨٥٤)

٤) وفي حدیث ابن مسعودؓ رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في قبر عبد اللہ ذی النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ، استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ فی صحیحہ۔ (فتح الباری شرح بخاری شریف، کتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلۃ، ۱۱/۱۴۸، تحت رقم الحدیث :۶۳۴۲)

وَجُلُوسُ سَاعَةٍ بَعْدَ دَفْنِهِ لِدُعَاءٍ وَقِرَاءَةٍ بِقَدْرِ مَا يُنْحَرُ الْجَزُورُ وَيُفَرَّقُ لَحْمُهُ۔ (شامی : ١/٢٣٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 محرم الحرام 1443

1 تبصرہ: