پیر، 13 ستمبر، 2021

پورا معاملہ ختم کہنے سے طلاق کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید نے پنچ میں کہا کہ میری بھی شرط ہے کہ اگر وہ ماں کے یہاں گئی تو پورا معاملہ ختم ....... کچھ دن بعد بیوی میکے چلی گئی، شوہر کہتا ہے میری نیت دھمکانے کی تھی طلاق کی نہیں، تو کیا طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہ کی اصطلاح میں بعض الفاظ کنایہ کے کہلاتے ہیں اور یہ ایسے الفاظ ہیں جن میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہوتا ہے، چنانچہ جب ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں اور طلاق کی نیت ہوتو طلاق واقع ہوتی ہے اور طلاق کی نیت نہ ہوتو طلاق واقع نہیں ہوتی۔

صورتِ مسئولہ میں زید نے جو کہا ہے کہ "اگر وہ ماں کے یہاں گئی تو پورا معاملہ ختم" یہ کنائی الفاظ ہیں، لہٰذا جب زید کہہ رہا ہے کہ اس کی نیت دھمکانے کی تھی، طلاق کی نیت نہیں تھی تو اس کی بات کا اعتبار ہوگا، اور اس کی بیوی کے اپنی ماں کے گھر جانے کے باوجود اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

بَابُ الْكِنَايَاتِ (كِنَايَتُهُ) عِنْدَ الْفُقَهَاءِ (مَا لَمْ يُوضَعْ لَهُ) أَيْ الطَّلَاقِ (وَاحْتَمَلَهُ) وَغَيْرَهُ۔ (شامی : ٣/٢٩٦)

وَلَوْ قَالَ اذْهَبِي فَتَزَوَّجِي وَقَالَ لَمْ أَنْوِ الطَّلَاقَ لَا يَقَعُ شَيْءٌ لِأَنَّ مَعْنَاهُ إنْ أَمْكَنَكِ... إلی قولہ وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الذَّخِيرَةِ اذْهَبِي وَتَزَوَّجِي لَا يَقَعُ إلَّا بِالنِّيَّةِ وَإِنْ نَوَى فَهِيَ وَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ۔ (شامی : ٣/٣١٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 صفر المظفر 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں