بدھ، 15 ستمبر، 2021

چھپ کر نکاح کرنے کے بعد دوبارہ اعلانیہ نکاح کرنا

سوال :

مفتی صاحب ! امید ہے کہ بخیر عافیت سے ہوں گے۔
ایک سوال دریافت کرنا تھا کہ ایک شخص نے تین لوگوں کی موجودگی میں نکاح کیا اور یہ بات صرف اِن تین لوگوں کے علاوہ کسی کو پتا نہیں ہے۔ چونکہ اُن کا ایک نکاح ہو چکا ہے اور اب اُن کے گھر والوں کو پتہ چلنے پر وہ اُن دونوں کا نکاح کرانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کے گھر والوں اس بات علم نہیں ہے تو دوبارہ نکاح کرنا درست رہےگا یا نہیں؟
(المستفتی : حافظ رضوان الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : والدین اور معاشرے سے چھپ کر نکاح کرنا شرعاً اور اخلاقاً پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ تاہم اگر مجلسِ نکاح میں لڑکا لڑکی اور شرعی گواہ موجود تھے تو نکاح شرعاً منعقد ہو چکا ہے۔ لہٰذا دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اگر آپ نے شرعی طریقے پر دو گواہوں کے سامنے نکاح کرلیا ہے تو شرعاً آپ کا نکاح صحیح ہوگیا، دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر آپ بدنامی یا والدین کے مریض ہوجانے کے اندیشہ سے دوبارہ بڑے مجمع میں نکاح کرنا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں نکاح ثانی لغو مانا جائے گا، البتہ نکاح ثانی میں اگر مہر پہلے سے زیادہ مقرر کیا جائے تو وہ زیادتی بھی لازم ہوگی الاّ یہ کہ نکاحِ ثانی اور مہرِ ثانی کے ہزل ومذاق ہونے پر گواہ موجود ہوں تو پھر زیادتی لازم نہ ہوگی۔ (رقم الفتوی : 170615)

معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں دوبارہ نکاح کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ پہلے نکاح میں جو مہر دی گئی تھی اس میں اگر مزید اضافہ نہیں کرنا ہے تو دوسرے نکاح میں بھی اتنی ہی مہر مقرر کی جائے یا اگر زیادہ مقرر کی جائے تو اس بات کا کسی کو گواہ بنا دیا جائے کہ یہ نکاح اور مہر فرضی ہے۔ البتہ اگر پہلی مہر سے زیادہ دینے کا ارادہ ہوتو پھر کوئی حرج نہیں، جتنی چاہے اتنی مہر رکھ لے۔ بس اس کا خیال رہے کہ پہلی مہر سے زیادہ جو رقم ہوگی اس کا بیوی کو ادا کرنا ضروری ہوگا۔

جدد النکاح بزیادة ألف لزمہ ألفان علی الظاہر، قال الشامی : حاصل عبارة الکافی: تزوجہا فی السر بألف ثم فی العلانیة بألفین ظاہر المنصوص فی الأصل أنہ یلزم الألفان ویکون زیادة فی المہر․․․ وعند الإمام أن الثانی وإن لغا لا یلغو ما فیہ من الزیادة ․․․ وذکر فی الفتح أن ہذا إذا لم یشہدا علی أن الثانی ہزل وإلا فلا خلاف فی اعتبار الأول، فلو ادعی الہزل لم یقبل بلا بینة۔ (الدرالمختار مع رد المحتار : ۴/ ۲۴۷، کتاب النکاح، مطلب: فی أحکام المتعة، زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 صفر المظفر 1443

2 تبصرے: