جمعرات، 9 جولائی، 2020

انسان اور جنات کے درمیان نکاح کا امکان اور حکم

سوال :

مفتی صاحب ! کیا انسان اور جنات کے درمیان نکاح منعقد ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں اور اگر کوئی شخص اس کے تعلق سے دعویٰ کرے میرا جنییہ سے نکاح ہوا ہے تو کیا اس کا دعوٰی تسلیم کیا جائے گا؟
(المستفتی : حافظ سلیم، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : انسان اور جنات کے درمیان نکاح اختلاف جنس کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے، نیز اس کی وجہ سے زنا کا دروازہ بھی کھُل جائے گا کہ کوئی جن یا جنیہ سے نکاح کا دعویٰ کرکے انسان سے نکاح نہ کرے اور پھر زنا کرتا پھرے۔

البتہ انسان اور جنات کے مابین نکاح کے امکان کی بات ہے تو اس سلسلے میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں :

جہاں تک اس کے عقلی امکان کا تعلق ہے اس میں کوئی بات غیر ممکن نہیں ہے۔ علامہ بدر الدین شبلیؒ معروف محقق عالم ہیں، انہوں نے اپنی کتاب آکام المرجان فی غرائب الاخبار و احکام الجان کے باب ۳۰ میں صفحہ۶۶ پر اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے۔ اور یہ لکھا ہے کہ انسان بے شک خاکی اور جن بے شک ناری ہیں لیکن جس طرح انسانوں میں سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام خاک سے پیدا کئے گئے لیکن ان کے بعد جب توالد و تناسل جاری ہوا تو ہر انسان براہ راست خاک سے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس میں تمام عناصر کار فرما رہے، اسی طرح جنات میں سب سے پہلا جن جس کا قرآنی نام "الجان" ہے براہ راست آگ سے پیدا کیا گیا تھا اس کے بعد تمام جنات توالد و تناسل سے پیدا ہوتے رہے اور ان میں بھی انسانوں کی طرح دوسرے عناصر کار فرما رہے ہیں، لہٰذا اب جنات مطلقاً آگ یا حرارت کا پیکر مجسم نہیں ہوتے بلکہ ان میں حرارت و برودت کا اعتدال ہوتا ہے، اس بناء پر عقلی طور سے انسان اور جن کے درمیان جنسی اختلاط ممکن ہے۔

علامہ شبلیؒ نے اس سے استدلال بھی کیا ہے کہ قرآن کریم نے جنت کی حوروں کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ (لم یطمثھن انس قبلھم ولا جان) یعنی ان کو جنتیوں سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا اور نہ کسی جن نے۔ اگر جن و انس کے درمیان اختلاط عقلاً ناممکن ہوتا تو یہاں جن کے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔ خلاصہ یہ کہ عقلاً نکاح ہونا غیر ممکن نہیں اور علامہ شبلیؒ نے اس پر سند کے ساتھ کچھ واقعات بھی لکھے ہیں کہ جنات و انسان کے درمیان شادیاں ہوئیں۔ ان واقعات کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ان کو عقلاً ناممکن نہیں کہا جاسکتا۔ (فتاوی عثمانی : ١/١٧٣)

صورتِ مسئولہ جن صاحب نے جنیہ سے نکاح کا دعویٰ کیا ہے تو ان کا دعویٰ نہ تو قبول کرنے کی ضرورت ہے نا ہی تردید۔ کیونکہ عین ممکن ہے وہ جھوٹ بھی کہہ رہے ہوں۔ اور اگر نکاح ہوا بھی ہے تو ان کا یہ عمل شرعاً جائز نہیں ہے، لہٰذا انہیں فوراً اس سے الگ ہوجانا چاہیے۔ نیز ایسے شخص سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ کوئی بزرگی اور ولی اللہ ہونے کی علامت نہیں ہے۔

قال العلامۃ ابن عابدین : فی الاشباہ عن السراجیۃ لا تجوز المناکحۃ بین بنی آدم والجن وانسان الماء لاختلاف الجنس ومفادالمفاعلۃ انہ لا یجوز للجنی ان یتزوج انسیۃ ایضا… الاصح انہ لا یصح نکاح آدمی جنیۃ کعکسہ لاختلاف الجنس فکانوا کبقیۃ الحیوانات۔ (ردالمحتار ہامش الدرلمختار :۲۸۲/٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی القعدہ 1441

3 تبصرے: