بدھ، 23 مارچ، 2022

افطار اور مغرب کی جماعت کے درمیان وقفہ

سوال :

میرا سوال مسجد کے ذمہ دار کی حیثیت سے ہے۔ ہمارے علاقے کی مسجد کافی وسیع ہونے کی وجہ سے دوسرے علاقے کی عوام موٹر سائیکل سوار بھی آتے ہیں، کیونکہ parkiing کی بھی جگہ کافی ہے، مسجد میں چاند نظر آنے کے بعد پہلی تراویح کے بعد علان کر تے ہیں کہ روزہ افطار کرنے کے وقت سے دس منٹ بعد مغرب کی اذان و جماعت ہوگی۔ تحقیق طلب امر یہ ہے کہ افطار کے وقت سے مغرب کی اذان اور کتنی تاخیر سے کر سکتے ہیں؟ آپ کے جواب کو ہندی اور مراٹھی میں گوگل translate  کرکے دیگر گروپ میں بھیجنا ہے۔
(المستفتی : عابد حسین، دھولیہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مغرب کی نماز میں تعجیل مستحب ہے، تعجیل یہ ہے کہ مؤذن اذان دے کر اقامت کی جگہ تک اطمینان کے ساتھ پہنچ جائے۔ اذان کے بعد جماعت کھڑی کرنے میں دو رکعت نماز مختصر سورتوں سے ادا کرنے سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ مطلب عام دنوں میں مغرب کی اذان واقامت کے درمیان تین منٹ سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ اور  بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔ البتہ رمضان المبارک میں روزہ داروں اور نمازیوں کی سہولت کی خاطر دس منٹ تک وقفہ کی گنجائش ہے، اس سے زیادہ تاخیر کرنا درست نہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
افطار کا اعلان کرکے اذان دس منٹ بعد کہنا یا اذان کہہ کر جماعت دس منٹ بعد کرنا دونوں طریقے درست ہیں، ہمارے یہاں دیوبند میں وقت افطار کی اطلاع کے لیے سائرن بجتا ہے اور اذان دس منٹ بعد کہی جاتی ہے اور اذان کے فوراً بعد جماعت کھڑی ہوجاتی ہے۔ (رقم الفتوی : 60659)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں رمضان المبارک کے ایام میں جبکہ آپ کے علاقے کی مسجد میں دور سے بھی مصلیان آتے ہیں تو ان کی رعایت میں افطار کے دس منٹ بعد مغرب کی جماعت کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اس سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے۔

حَدَّثَنَا  عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُوأَيُّوبَ غَازِيًا، وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ، فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوبَ ، فَقَالَ لَهُ : مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ يَا عُقْبَةُ ؟ فَقَالَ : شُغِلْنَا. قَالَ : أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ - أَوْ قَالَ : عَلَى الْفِطْرَةِ - مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤١٨)

(قَوْلُهُ: وَالْمَغْرِبُ) أَيْ وَنُدِبَ تَعْجِيلُهَا لِحَدِيثِ الصَّحِيحَيْنِ «كَانَ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ إذَا غَرُبَتْ الشَّمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ» وَيُكْرَهُ تَأْخِيرُهَا إلَى اشْتِبَاكِ النُّجُومِ لِرِوَايَةِ أَحْمَدَ «لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ حَتَّى تَشْتَبِكَ النُّجُومُ» ذَكَرَهُ الشَّارِحُ وَفِيهِ بَحْثٌ إذْ مُقْتَضَاهُ النَّدْبُ لَا الْكَرَاهَةُ لِجَوَازِ الْإِبَاحَةِ وَفِي الْمُبْتَغَى بِالْمُعْجَمَةِ وَيُكْرَهُ تَأْخِيرُ الْمَغْرِبِ فِي رِوَايَةٍ وَفِي أُخْرَى لَا مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ الْأَصَحُّ هُوَ الْأَوَّلُ إلَّا مِنْ عُذْرٍ كَالسَّفَرِ وَنَحْوِهِ أَوْ يَكُونُ قَلِيلًا وَفِي الْكَرَاهَةِ بِتَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ خِلَافٌ۔ (البحر الرائق : ١/٢١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 شعبان المعظم 1443

8 تبصرے: