منگل، 1 مارچ، 2022

سلام کہلوانے اور پہنچانے سے متعلق احکام

سوال :

مفتی صاحب! عرض یہ کہ ہم جب دوسرے شہر سفر کے لیے نکلتے ہیں تو ہمارے گھر کے افراد ہم کو ایک کام سونپ دیا کرتے ہیں کہ وہاں جانا تو سب کو میرا سلام کہنا۔ یا فلاں کو میرا سلام کہنا۔ اور اسی طرح میزبان بھی کہتا ہے۔  آیا اب بندہ بھول جائے۔ یا اس شخص سے ملاقات نا ہو پائے۔ یا کچھ سے سلام کہے اور کچھ چھوڑ دے، تب اس صورت میں بندے کو کیا کرنا ہوگا؟ تفصیل سے رہنمائی فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : آصف اقبال، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی کے ذریعے کسی کو سلام کہنا جائز ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کا سلام پیش کیا، تو آپ نے جواب میں فرمایا : "علیک وعلی أبیک السلامُ"۔ تم پر اور تمہارے والد پر سلامتی ہو۔ اِسی طرح ایک روایت میں ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت جبرئیل علیہ السلام کا سلام پیش فرمایا۔

اگر کسی شخص نے دوسرے سے کہا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا یا فلاں جگہ سب کو میرا سلام کہہ دینا اور اس شخص نے کہا ٹھیک ہے میں سلام کہہ دوں گا۔ تو ایسی صورت میں اس پر سلام کا پہنچانا واجب ہوگا۔ کیونکہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے بعد یہ سلام امانت بن گیا، جس کا پہنچانا واجب ہے، اور اگر اس نے جواباً کچھ نہیں کہا تو پھر یہ سلام ودیعت ہے۔ جس کا پہنچانا واجب تو نہیں، لیکن پہنچا دے تو احسان ہوگا۔

درج بالا تفصیلات کی روشنی میں آپ اپنا معاملہ سمجھ لیں کہ اگر آپ نے سلام پہنچانے کی ذمہ داری باقاعدہ زبان سے قبول کرلی تھی تو آپ پر انہیں سلام پہنچانا واجب تھا۔ اگر آپ نے قصداً انہیں سلام نہیں کہا تو گناہ گار ہوں گے۔ ہاں اگر بھول گئے یا ملاقات ہی ممکن نہیں ہوسکی تو پھر کوئی گناہ نہیں۔ اور اگر زبان سے یہ ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تو پھر اس سلام کا پہنچانا واجب نہیں۔ لہٰذا اس صورت میں قصداً بھی سلام کہنا چھوڑ دیا تو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

مذکورہ صورت میں چونکہ غفلت، سہو یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے سلام پہنچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ کہنے والا یوں کہے : میرا سلام کہہ دینا "اگر یاد رہے" ۔ "اگر ممکن ہو" ۔ "بشرطِ سہولت" اگر یہ شخص نہ کہہ سکے تو دوسرا شخص ہی یہ کہہ دے کہ ان شاء اللہ "اگر یاد رہا" ۔ ’ممکن ہوا" تو عرض کردوں گا، اس صورت میں سلام کا پہنچانا واجب نہ ہوگا۔

سلام پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس شخص کو کہہ دیا جائے کہ فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے۔ البتہ جس کو سلام کہا گیا ہے وہ جواب میں سلام لانے والے اور سلام کہلوانے والے دونوں کو سلامتی کی دعا دے، یعنی اس طرح جواب دے : علیکَ وعلیہِ السلام۔ اگر سلام کہلوانے والی عورت ہوتو : علیکَ وعلیہا السلام۔ اور اگر سلام کہنے اور پہنچانے والی دونوں عورتیں ہوتو علیکِ وعلیہا السلام۔ کے الفاظ کہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَا اَوْ رُدُّوْہَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَسِیْبًا۔ (سورۃ النساء : ۸۶)

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَدَّثَتْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا : إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ ". قَالَتْ : وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۶۲۵۳)

عَنْ غَالِبٍ، قَالَ : إِنَّا لَجُلُوسٌ بِبَابِ الْحَسَنِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي قَالَ : بَعَثَنِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ائْتِهِ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ. قَالَ : فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ : إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ. فَقَالَ : " عَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٥٢٣١)

وَإِذَا أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يَقْرَأَ سَلَامَهُ عَلَى فُلَانٍ يَجِبُ عَلَيْهِ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْغِيَاثِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٢٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 رجب المرجب 1443

1 تبصرہ:

  1. ماشاءاللہ بہت خوب
    اللہ رب العزت آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں