جمعرات، 3 مارچ، 2022

تیراکی کا شرعی حکم

سوال :

مفتی صاحب ! اکثر اوقات میں سننے میں آیا ہے کہ تیرنا سوئمنگ کرنا سنت ہے۔ اس بات پر آپ رہنمائی فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : شاہد بھائی، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تیراکی ایک بہترین جسمانی ورزش ہے۔ جس کی افادیت پر علماء اور اطباء کا اتفاق ہے۔ اور احادیث مبارکہ سے اس کا جواز بلکہ استحباب بھی ثابت ہوتا ہے۔ ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہو ولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے : (۱) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ تفریح طبع کے کاموں میں مشغول ہونا (۲) اپنے گھوڑے سدھانا (۳) دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا (۴) تیراکی سیکھنا سکھانا۔

اسی طرح تیراکی سیکھنے  سکھانے کی ترغیب بھی احادیث میں ملتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اولاد کا والدین پر یہ  حق ہے کہ   وہ انہیں کتابت،  تیراکی، تیر اندازی سکھائے، اور  اچھی تربیت کرے،  ایک اور روایت میں ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بیٹوں کو تیراکی اور  تیر اندازی سکھلاؤ،  لہٰذا تیراکی اس معنی میں سنت ہے کہ اس کے   سیکھنے کی ترغیب  احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ البتہ کسی معتبر روایت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بذات خود تیراکی کرنا ثابت نہیں۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ تیراکی مستحب عمل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہیں بھی تیراکی کی جانے لگے، بلکہ مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ تیراکی سیکھنا اور کرنا چاہیے۔ کیونکہ تیراکی کرنا صرف مستحب ہے لیکن جان کا بچانا فرض ہے۔ لہٰذا اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔

نوٹ : ستر چھپانا فرض ہے۔ لہٰذا تیراکی میں اس کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے کہ ستر نہ کھلے، کیونکہ عموماً تیراکی کرنے والے ستر چھپانے کا اہتمام نہیں کرتے۔

عن جابر بن عبدالله وجابر بن عمير الأنصاريين:  كلُّ شيءٍ ليس مِن ذِكْرِ اللهِ عزَّ وجلَّ، فهو لَغْوٌ ولَهْوٌ أو سَهْوٌ، إلا أربعَ خِصالٍ: مَشْيُ الرَّجُلِ بين الغرَضَيْنِ، وتأديبُهُ فرَسَه، وملاعَبتُهُ أهلَه، وتعلُّمُ السِّباحةِ.
شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج زاد المعاد ٣‏/٧٦ • إسناده صحيح

حَدَّثَنا أبُو القاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّرّاجِ، إمْلاءً، أنبأ أبُو الحَسَنِ أحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ الطَّرائِفِيُّ، أنبأ عُثْمانُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ، ثنا بَقِيَّةُ، عَنْ عِيسى بْنِ إبْراهِيمَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أبِي سُلَيْمانَ مَوْلى أبِي رافِعٍ، عَنْ أبِي رافِعٍ، قالَ: قُلْتُ : يا رَسُولَ اللهِ، ألِلْوَلَدِ عَلَيْنا حَقٌّ، كَحَقِّنا عَلَيْهِمْ؟ قالَ: «نَعَمْ حَقُّ الوَلَدِ عَلى الوالِدِ أنْ يُعَلِّمَهُ الكِتابَةَ، والسِّباحَةَ، والرَّمْيَ، وأنْ يُوَرِّثَهُ طَيِّبًا»۔ (شعب الایمان للبیھقی، رقم : ١٩٧٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1443

1 تبصرہ:

  1. سبحان اللہ
    کتنے بہترین انداز میں رہنمائی کی ہے
    اللہ رب العزت آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں