جمعرات، 10 مارچ، 2022

حاملہ کے پستان سے نکلنے والی رطوبت کا حکم

سوال :

مفتی صاحب مسئلہ یہ در پیش ہیکہ عورت کے پستان سے لیس دار پانی نکلے تو اسے کیا کہاجائیگا؟ یاد رہے کہ وہ نکلنے والا مادہ دیکھنے میں منی جیسا تھا، حال یہ ہیکہ اس عورت کو ابھی کوئی اولاد نہیں ہوئی مگر ابھی فی الحال وہ تین چار ماہ کے حمل سے ہے، آپ سے ادبًا درخواست ہے کہ اس مسئلہ کا حل بتائیں۔ آیا اس مادہ کو ہم کیا مانیں اگر وہ منی ہے تو پھر غسل وغیرہ کا حکم ہوگا؟
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حاملہ عورت خواہ بچے والی ہو یا اس کے حمل کا پہلا موقع ہو اس کے پستان سے نکلنے والی رطوبت دودھ جیسی نہ ہو تب بھی یہ ناپاک نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے نکلنے سے عورت پر نہ تو غسل واجب ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا وضو ٹوٹتا ہے۔ اور اگر یہ کہیں لگ جائے تو اس کا دھونا بھی ضروری نہیں۔ ہاں صفائی اور نظافت کے لیے دھو لینا چاہیے۔

والودي الغلیظ من البول یتعقب الرقیق۔ والمذي : رقیق یضرب إلی البیاض یخرج عند ملاعبۃ الرجل أہلہ۔ (ہدایۃ : ۱/۳۳)

المني حاثر أبیض ینکسر منہ الذکر۔ (ہدایۃ : ١/۳۳)

قَالَ (وَفِي الْمَنِيِّ الْغُسْلُ) لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إنَّمَا الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ» يَعْنِي الِاغْتِسَالَ مِنْ الْمَنِيِّ.....قَالَ (، وَفِي الْمَذْي الْوُضُوءُ) لِحَدِيثِ «عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ كُنْتُ فَحْلًا مَذَّاءً فَاسْتَحْيَيْت أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ تَحْتِي فَأَمَرْت الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ حَتَّى سَأَلَهُ فَقَالَ كُلُّ فَحْلٍ يُمْذِي، وَفِيهِ الْوُضُوءُ» وَكَذَلِكَ الْوَدْيُ فَإِنَّهُ الْغَلِيظُ مِنْ الْبَوْلِ فَهُوَ كَالرَّقِيقِ مِنْهُ، ثُمَّ فَسَّرَ هَذِهِ الْمِيَاهَ فَقَالَ (الْمَنِيُّ خَائِرٌ أَبْيَضُ يَنْكَسِرُ مِنْهُ الذَّكَرُ)، وَذَكَرَ الشَّافِعِيُّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فِي كِتَابِهِ أَنَّ لَهُ رَائِحَةَ الطَّلْعِ (، وَالْمَذْيُ رَقِيقٌ يَضْرِبُ إلَى الْبَيَاضِ يَخْرُجُ عِنْدَ مُلَاعَبَةِ الرَّجُلِ أَهْلَهُ، وَالْوَدْيُ رَقِيقٌ يَخْرُجُ مِنْهُ بَعْدَ الْبَوْلِ)، وَتَفْسِيرُ هَذِهِ الْمِيَاهِ مَرْوِيٌّ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا بِهَذِهِ الصِّفَةِ۔ (المبسوط : ۱؍۶۷، کتاب الصلاۃ، باب الوضوء و الغسل)

عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ : كُنْتُ أَلْقَى مِنَ الْمَذْيِ شِدَّةً وَعَنَاءً، فَكُنْتُ أُكْثِرُ مِنْهُ الْغُسْلَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ : إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ. فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي مِنْهُ ؟ قَالَ : يَكْفِيكَ أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ، فَتَنْضَحَ بِهِ ثَوْبَكَ حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَ مِنْهُ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١١٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1443

2 تبصرے: