ہفتہ، 20 فروری، 2021

نماز با جماعت کی نیت زبان سے ادا کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! جماعت کھڑی ہے اور بندہ زبان سے نماز کی نیت کررہا ہے، یہاں تک کہ امام صاحب رکوع میں چلے گئے اور رکعت چھوٹ گئی۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ بارہا لوگوں کو اس عمل سے گزرتے دیکھا ہے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے لیے نیت کرنا فرض ہے، اور نیت دراصل دل کے ارادے کا نام ہے، اور دل میں ارادہ ہوجائے تو یہی نماز کے لیے کافی ہوجائے گا۔ زبان سے نیت کرنا اگرچہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، لیکن ناجائز اور بدعت بھی نہیں ہے، عوام الناس کے قلب و ذہن کو حاضر اور یکسو کرنے کے لئے فقہاء نے نیت کے الفاظ کو زبان سے کہنے کو مستحسن اور بہتر لکھا ہے، تاہم زبان سے نیت کے الفاظ کہنے کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔

بلاشبہ نیت سے متعلق عوام کا ایک بڑا طبقہ غلط فہمیوں کا شکار ہے، اور زبان سے نیت کرنے کو ایک مشکل اور گھمبیر مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ نیت کے طول طویل الفاظ ادا کرنے میں تکبیرِ اُولیٰ بلکہ رکعت تک فوت کردیتے ہیں جو بالکل بھی درست نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی اصلاح ضروی ہے۔

معلوم ہونا چاہیے اگر زبان سے نیت کے الفاظ ادا کیے جارہے ہیں تو اصل نیت الفاظ بالکل مختصر ہیں، جیسے فرض نماز کی نیت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ : میں فجر کی دو رکعت فرض نماز ادا کرتا ہوں، یا : میں ظہر کی چار رکعت فرض نماز ادا کرتا ہوں۔ اگر جماعت کے ساتھ ہے تو یوں نیت کرے کہ : میں فجر کی دو رکعت فرض نماز ادا کرتا ہوں امام کے پیچھے۔ اور سنتوں کی نیت یوں کرے کہ : میں ظہر کی چار رکعت سنت ادا کرتا ہوں، یا : میں مغرب کی دو رکعت سنت ادا کرتا ہوں۔ اور وتر کی نیت یوں کرے: میں تین رکعت وتر نماز ادا کرتا ہوں۔ اور نفل کی نیت یوں کرے : میں دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں، یا : میں دو رکعت اشراق کی نماز ادا کرتا ہوں۔ اور قضا نماز کی نیت یوں کرے کہ : میں فجر کی دو رکعت قضا فرض نماز ادا کرتا ہوں۔ نماز جنازہ میں اس طرح نیت کرلے کہ : میں امام کی اقتداء میں بالغ کی نماز جنازہ ادا کررہا ہوں، یا نابالغ بچے/بچی کی نماز جنازہ ادا کررہا ہوں۔ نیز اگر کسی کو زبان سے نیت کرنے میں مشکل پیش آتی ہو تو دل ہی دل میں نیت کرلیا کرے کہ اصل نیت تو دل ہی کی نیت ہوتی ہے۔

ملحوظ رہے کہ اگر کسی کے دل میں صحیح نیت ہو لیکن زبان سے نیت کرتے وقت اس سے غلطی ہوجائے جیسے عصر کی جگہ مغرب کہہ دیا، یا چار رکعات کی جگہ تین کہہ دیا تب بھی اس کی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا، نماز بلاکراہت درست ہوجائے گی۔

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات پڑھ لینے کے بعد نیت سے متعلق بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی اور نیت کا آسان طریقہ بھی سمجھ میں آجائے گا۔

(وَ) الْخَامِسُ : (النِّيَّةُ) بِالْإِجْمَاعِ (وَهِيَ الْإِرَادَةُ) الْمُرَجِّحَةُ لِأَحَدِ الْمُتَسَاوِيَيْنِ أَيْ إرَادَةُ الصَّلَاةِ لِلّٰہِ تَعَالَى عَلَى الْخُلُوصِ، (لَا) مُطْلَقُ (الْعِلْمِ) فِي الْأَصَحِّ، أَلَا تَرَى أَنَّ مَنْ عَلِمَ الْكُفْرَ لَا يَكْفُرُ، وَلَوْ نَوَاهُ يَكْفُرُ، (وَالْمُعْتَبَرُ فِيهَا عَمَلُ الْقَلْبِ اللَّازِمِ لِلْإِرَادَةِ) فَلَا عِبْرَةَ لِلذِّكْرِ بِاللِّسَانِ إنْ خَالَفَ الْقَلْبَ؛ لِأَنَّهُ كَلَامٌ لَا نِيَّةَ إلَّا إذَا عَجَزَ عَنْ إحْضَارِهِ لِهُمُومٍ أَصَابَتْهُ فَيَكْفِيهِ اللِّسَانُ، «مُجْتَبَى»، (وَهُوَ) أَيْ عَمَلُ الْقَلْبِ (أَنْ يَعْلَمَ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بَدَاهَةً) بِلَا تَأَمُّلٍ (أَيَّ صَلَاةٍ يُصَلِّي)، فَلَوْ لَمْ يَعْلَمْ إلَّا بِتَأَمُّلٍ لَمْ يَجُزْ. (وَالتَّلَفُّظُ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بِهَا مُسْتَحَبٌّ) هُوَ الْمُخْتَارُ، وَتَكُونُ بِلَفْظِ الْمَاضِي وَلَوْ فَارِسِيًّا؛ لِأَنَّهُ الْأَغْلَبُ فِي الْإِنْشَاءَاتِ، وَتَصِحُّ بِالْحَالِ، «قُهُسْتَانِيٌّ»، (وَقِيلَ: سُنَّةٌ) يَعْنِي أَحَبَّهُ السَّلَفُ أَوْ سَنَّهُ عُلَمَاؤُنَا؛ إذْ لَمْ يُنْقَلْ عَن الْمُصْطَفَى ﷺ وَلَا الصَّحَابَةِ وَلَا التَّابِعِينَ، بَلْ قِيلَ: بِدْعَةٌ۔ (الدر مع الشامی : ١١٦- ١/١١٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 رجب المرجب 1442

3 تبصرے: